کیس اسٹڈی

بدلتا وقت: خواتین پولیس افسران پاکستان میں رکاوٹیں عبورکررہی ہیں

برطانیہ، پختونخواہ کو تعاون فراہم کررہا ہے تاکہ یہ صوبہ خواتین کی انصاف تک رسائی کو بہتر بناسکے اورخواتین کے مسائل پر مزید توجہ دے سکے.

Violence against women is widespread in Pakistan - 9 out of 10 women have experienced domestic violence, but only 4% of complaints received by the police are from women.

Violence against women is widespread in Pakistan - 9 out of 10 women have experienced domestic violence, but only 4% of complaints received by the police are from women. Picture: Jenny Matthews/Panos

پاکستان میں عورتوں پر تشدد عام ہے، 10 میں سے 9 عورتوں کو گھریلو بدسلوکی کا سمنا کرنا پڑتا ہے، لیکن پولیس تک صرف 4 فی صدشکایات پہنچ پاتی ہیں۔

تیس سالہ سمیرا جبیں ایک عام پاکستانی عورت نہیں وہ فقیر آباد میں ایک ماڈل پولیس یونٹ کے نئے خواتین سیل کی انچارج آفیسر ہیں۔ پشاور میں دو اس طرح کے یونٹ اور ہیں۔ یہ ماڈل پولیس اسٹیشنز خیبر پختونخواہ حکومت کی شراکت داری میں برطانیہ کی مالی معاونت سے چلتے ہیں۔ تاکہ صوبے میں انصاف تک خواتین کی دسترس کو بہتر بنایا جاسکے.

ایک جرآتمندانہ پیشہ

سمیرا پشاورخواتین پولیس میں 3 سال سے زائد عرصے سے کام کررہی ہیں اورانہیں گزشتہ برس فقیر آباد میں تعینات کیا گیا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ ان کا جرآتمندانہ پیشہ ان کے والدین اور شوہر کے تعاون سے ممکن ہوا ہے.

'’پولیس فورس یں شمولیت کے لئے میرے والدین کا تعاون بہت اہم تھا پھر مجھے اپنے مرد ساتھیوں سے بھی بہت رہنمائی اور تعاون ملا جنہوں نے اس تمام عرصے میں میری مدد کی.’’

پاکستان عورتوں کے باب میں دنیا کا تیسرا خطرناک ترین ملک ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ عورتوں پر تشدد عام ہے 10 میں سے 9 عورتیں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی رہی ہیں لیکن صرف 4 فی صد عورتوں کی شکایات پولیس تک پہنچتی ہیں.

ماڈل یونٹ میں سمیرا کی بنیادی ذمے داری عورتوں کی شکایات کے لئے رابطہ پوائنٹ فراہم کرنا ہے.

'’میں خواتین کی شکایات سنتی ہوں،مسائل کا اندراج کرتی ہوں اور اپنے مرد ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد مناسب کارروائی کرتی ہوں.“

'’میں سمجھتی ہوں کہ یہ قابل تعریف انی شئیٹو ہے۔ عورتیں مردوں کی بجائے ایک عورت سے اپنی تکلیف کا اظہار آسانی سے کر لیتی ہیں۔اس سے کئی اورعورتوں کو جو پہلے ہچکچاتی تھیں، آگے آنے اورانصاف کا مطالبہ کرنے کا حوصلہ ہوگا۔’’ سمیرا نے کہا.

Sumera Jabeen

Sumera Jabeen has been a part of the Peshawar women’s police force for over 3 years. She is the point of contact for female complainants. Picture: Aitebaar

سانچے کی ٹوٹ پھوٹ

لیکن اس سے بھی زیادہ سنگین واقعات، جیسے اغوا، بھی رونما ہوتے ہیں جن میں عورتوں کے شکایتی یونٹ کی ضرورت پڑتی ہے.

’’ گزشتہ ہفتے ہمیں ایک عورت کو گھر سے اغوا کئے جانے کی اطلاع ملی۔ ہماری خواتین پولیس افسران تلاش کی کارروائی میں شروع سے شامل رہیں اورانہوں نے سراغرسانی عملے کی بھی مدد کی۔ ہماری سخت کوشش سے بالاخر لڑکی کو برآمد کر لیا گیا.“

سمیرا کو پشاور پولیس کی ایک خاتون اہلکار ہونے پر بہت فخر ہے اورانہیں یقین ہے کہ ان کو اس سے دوسری عورتوں کی مدد کرنے کا منفرد موقع ملتا ہے اور یہ دکھانے کا بھی کہ خواتین دوسرے پیشوں میں بھی کامیاب ہو سکتی ہیں.

’’ میرے لئے پشاورمیں خاتون پولیس افسر بننا ایک اعزاز ہے۔اس میدان میں کبھی زیادہ عورتیں نہیں رہیں۔اوران کا تناسب اب بھی کم ہے۔ معاشرہ البتہ دھیرے دھیرے ہماری موجودگی کو قبول کرتا جارہا ہے۔ عورتوں نے پرانے سانچے کو توڑا ہے اور اپنے روایتی کردارسے باہر آکر معاشرے کو اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہیں۔ آج کل مردوں کے معاشرے میں بھی پشاور کی عورتیں، ڈاکٹر،انجینئیر، وکیل، ٹیچر، کاروباری اور پولیس افسر بن رہی ہیں۔ حالات بدل رہے ہیں.“

اعداو شماراورحقائق

  • خواتین پر تشدد پاکستان میں عام ہے جس میں گھریلو تشدد، جنسی زیادتی اور ہراسانی، تیزاب سے حملے ، جبری شادی، عصمت دری اورعزت کے نام پر قتل شامل ہیں جن کی رپورٹ بہت کم کی جاتی ہے.
  • برطانیہ پختونخواہ حکومت اور پولیس کے ساتھ کام کرتے ہوئے سیکیورٹی اورانصاف کا ایک قابل دسترس نظام تشکیل دینے میں مدد کررہا ہےتاکہ خواتین اعتماد کے ساتھ جرائم کی رپورٹ اور انصاف کا مطالبہ کرسکیں۔ اس جدوجہد میں خواتین پولیس افسراور پراسیکیوٹر کا کردار لازمی ہے.
  • برطانیہ اسی قسم کے 7 مزید ماڈل پولیس اسٹیشنوں میں 2016ء تک شکایتی مراکز قائم کرنے میں مدددے گا۔ .

پاکستان میں ترقیاتی امور میں آپ کو دلچسپی ہے؟ سہ ماہی ای-بلیٹن حاصل کرنے کے لئے یہاں دستخط کیجئیے.

Updates to this page

شائع کردہ 14 March 2014