ایشیائی مسلمان اورسیاہ فام افراد پڑھائی میں بہتر، ملازمت میں کمتر
سفید فام غریب بچےاسکول میں بری کارکردگی لیکن سیاہ فام اورایشیائی مسلمان نوجوان ، خاص طور پر لڑکیاں ملازمت میں بری کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں.
آج ایک نئی تحقیق کے اجرامیں سوشل موبیلیٹی کمیشن کے صدرایلن ملبرن نے بتایا:
“اسکول میں کامیابیوں کامحنت کش مارکیٹ میں کارآمد نہ ہونا سماجی حرکت پزیری کے لئےعہد کی ناکامی ہے.”
سوشل موبیلیٹی کمیشن کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق سیاہ فام اورایشیائی مسلمان نوجوان سب سے زیادہ بے روزگار ہوتے ہیں اورمحنت کش طبقے کے سفید فام نوجوانوں کے مقابلے میں زندگی میں سماجی غیرحرکت پزیری کا سامنا کرتے ہیں اگرچہ وہ اسکول میں بہتر کارکردگی کے حامل ہوتے ہیں۔
رپورٹ تعلیمی اورلیبرمارکیٹ میں مختلف نسلی اورصنفی سماجی گروپوں کے درمیان نمایاں فرق ظاہر کررہی ہےاوراس نے کمیشن کوآمادہ کیا کہ برطانوی سماجی حرکت پزیری کے اس عزم کو، کہ سخت محنت کا صلہ ملنا چاہئیے، دوبارہ تازہ کیا جائے۔
’ نسل، صنف اورحرکت پزیری، رپورٹ حالیہ انکشافات کی تصدیق کرتی ہےکہ غریب سفید فام لڑکے پرائمری اورثانوی اسکول کےپورے تعلیمی دورانئے میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ سیاہ فام بچے جو دیگر نسلی گروپوں کی نسبت اسکول جلد شروع کرتے ہیں، ریاضی ، سائنس میں پیچھے رہ جاتے ہیں ، جی سی ایس ای میں ریاضی میں فیل ہوتے ہیں، ریاضی اور ٹیکنالوجی اے لیول اوریونی ورسٹی کی اچھی ڈگری کے حصول تک سب سے کم تعداد میں پہنچ پاتے ہیں ۔ سیاہ فام لڑکےاسکول میں انتہائی تنہائی کا شکار ہوتے ہیں اوراپنی ہم کلاس لڑکیوں کی نسبت مجموعی طور سے خراب کارکردگی دکھاتے ہیں۔
لیکن سفید فام پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوان اعلی تعلیم تک مشکل سے پہنچ پاتے ہیں، ہر 10 میں سے صرف ایک یونیورسٹی میں داخل ہو پاتا ہے جبکہ سیاہ فام کیربیائی کے 10 میں سے 3، بنگلا دیشی 10 میں سے 5 اور کم ترین آمدنی والے چینی 10 میں سے 7 تک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
اس کے باوجود سفید فام برطانوی گروپوں کی نسبت نسلی اقلیتی گروپس میں بےروزگاری بہت عام ہے۔ تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ایشیائی مسلمانوں خاص طور پرخواتین کے باب میں سماجی حرکت پزیری کا عزم ٹوٹ گیا ہے۔ پاکستانی اور بنگلا دیشی پس منظر کے نوجوان عام طورپرتعلیم میں کامیاب اوریونیورسٹی تک پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن انہیں منیجر کی سطح پر یا پیشہ ورانہ مقام میں محفوظ ملازمت کم ہی مل پاتی ہے۔ پاکستانی اور بنگلا دیشی خواتین کی دیگر نسلی اقلیتی گروپوں کے مقابلے میں آمدنی کم ہوتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ والدین کی توقعات اوران کی شمولیت جیسے اسکول کے ساتھ رابطہ، ہوم ورک میں مدد اور پرائیویٹ ٹیوشن چند نسلی گروپوں کی اعلی کامیابیوں کا سبب ہیں۔ غریب سفید فام خاندان اپنے بچوں کی تعلیم میں دوسرے نسلی گروپوں کی نسبت کم دلچسپی لے پاتے ہیں اوریہی شاید ان بچوں کی کمتر کارکردگی کی وجہ ہو جائے ملازمت پر تحقیق کنندگان نے دریافت کیا کہ جغرافیہ، امتیاز اورثقافتی توقعات شاید اس کی توجیہ کرسکیں کہ کیوں چند نسلی گروپس خاص طور پرایشیائی مسلمان لیبرمارکیٹ میں خواتین اچھی کارکردگی کامظاہرہ نہیں کرپاتیں جبکہ اسکول اور یونیورسٹی میں شاندارکامیابیاں حاصل کرتی ہیں۔