پاکستان کے لئے نامزد برطانوی ہائی کمشنر'' ایک عظیم ملک میں شاندار فریضہ '' کی انجام دہی کے منتظر
پاکستان کے لئے نامزد برطانوی ہائی کمشنرتھامس ڈریو (سی ایم جی) نے برطانیہ میں اسلام آباد روانگی سے پہلے پاکستانی میڈیا سے بات چیت کی ہے.
اپنی تقریر میں جس کا ایک حصہ اردو میں تھا انہوں نے کہا :
مجھے اپنی تقرری ایک بہت بڑا اعزاز محسوس ہورہی ہے۔ تقریبا دس سال پہلے میں پہلی بار پاکستان میں رہا تھا، بحیثیت سیاسی کونسلر کے۔ اس ملک اوراس کے عوام سے میری بہت دوستی ہوگئ تھی۔ وہاں واپس جانے کے خیال سے میرے اندر توانائی کی زبردست لہر بیدار ہوگئی ہے۔ مجھے پرانے دوستوں سے ملنے اور اس خوبصورت ملک کو مزید دیکھنے اور اس سے بھی زیادہ وہ فریضہ انجام دینے کے خیال سے سرشاری مل رہی ہےجو دونوں ملکوں کے لئے بہت اہم ہے۔ ایک دوسرے کی سلامتی، علاقائِی استحکام اور ایک دوسرے کی خوشحالی کے لحاظ سےبرطانیہ کے لئے پاکستان اہم مقام رکھتا ہے اورمیں یہ گمان رکھنا چاہتا ہوں کہ برطانیہ پاکستان کے لئے اہمیت رکھتا ہے.
اس میں مرکزی مقام ان پاکستانی نژاد 15 لاکھ برطانوی شہریوں کو حاصل ہے جنہوں نے برطانیہ کو اپنا گھر بنا لیا ہے۔جب میں نے گزشتہ ہفتے بریڈ فرڈ میں برطانوی پاکستانی کمیونٹی کے رہنماوں سے ملاقات کی تو بذات خود یہ بات محسوس کی۔ کہ ہم ایک خاندان کی مانند ہیں۔ ہمارے انسانی، ثقافتی اور تاریخی روابط کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا بندھن طویل مدتی ہے ۔ یہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ گہرا بھی ہے۔ ہمارے مسائل مشترکہ ہیں۔ اور اسی طرح ہمارے وسائل بھی.
میرا سب سے اہم فرض ان وسائل کے استعمال میں مدد دینا ہے۔ پاکستان کے پاس بیش بہاوسائل ہیں۔اس کی آبادی نوجوان اور متحرک ہے۔ اس کا بنیادی ڈھانچہ بہتر ہورہا ہے۔ اس کی جغرافیائی پوزیشن اسےعالمی مارکیٹ کے مرکزاورایک نئی شاہراہ ریشم پرلاکھڑا کئے ہوئے ہے۔ اس کا شہر کراچی دنیا کے دس بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ لیکن ان تمام طویل المدت امکانات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان کو کئی قسم کے چیلنجز اورخطرات سے نمٹنا ہے۔ اور ہم برطانیہ میں اس کے لئے ہرممکن مدد کریں گے، جو پاکستان کو ایک مزید مستحکم، مزید خوشحال اوربہتر گورننس کا ملک بنانے کے لئےکی جائے گی۔ اس میں برطانیہ اور پاکستان دونوں کا فائدہ ہے۔ اس میں تحفظ کے ساتھ تجارت، تعلیم، صحت اوراچھی حکومت سازی بھی شامل ہے.
تمام سفیر یہ کہنے کے خواہشمند ہوتے ہیں کہ ان کے دونوں ملکوں کے درمیاں تعلقات کتنے اہم ہیں۔ لیکن پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنرکی حیثیت سے میں اس خوش قسمت مقام پر ہونگا کہ موجود وسائل سے اس کو ثابت کرسکوں۔اسلام آباد میں ہمارا ہائی کمیشن دنیا میں سب سے بڑے مشنز میں سے ایک ہے۔ اسی طرح پاکستان کے لئے ہمارا دو طرفہ تعاون پروگرام بھی.
پاکستان سے 2008 ء میں واپسی کے بعد سے میں نے جتنے فرائض انجام دئِے ہیں ان میں خود مشاہدہ کیا ہے کہ برطانیہ کی خارجی اور داخلی پالیسی میں پاکستان کا کتنا مرکزی مقام ہے۔ وزارت خارجہ کے قومی سلامتی ڈائریکٹر کی حیثیت سے مجھے سلامتی کے ان چیلنجز کا بھر پورادراک ہے جو پاکستان کو درپیش ہیں اوران سے نمٹنے کے لئے پاکستان جو قربانیاں دے رہا ہے۔ مجھے یہ اندازہ بھی ہوا کہ وہ برطانیہ کی اپنی قومی سلامتی کے لئے کتنے اہم ہیں۔ ابھی حال ہی میں، میں وزرائے خارجہ ولیم ہیگ اور فلپ ہیمنڈ کا پرنسپل پرائیویٹ سکریٹری رہا ہوں۔ اس مقام پر میں نے اپنی خارجہ پالیسی کی تمام تر وسعت کو جانا اور پاکستان کو اس میں مرکز سے کبھی دور نہیں پایا۔.
لہذا میرا فریضہ اس لئے عظیم ہے کہ پاکستان کی اپنی اہمیت ہے۔لیکن یہ اس لئَے بھی عظیم ہے کہ مجھے یہ یقین ہے کہ برطانیہ ایک فرق پیدا کرنے کا اہل ہے۔ اور ہم کئی امور میں پہلے ہی سے یہ فرق لارہے ہیں.
میرے سب سے پسندیدہ اعداد وشمار تعلیم سے متعلق ہیں جہاں برطانیہ کی براہ راست مدد سے 63لاکھ بچے ابتدائی تعلیم کا موقع حاصل کرسکے ہیں۔ اس کا سہرا ہمارے محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی کو جاتا ہے، یا پھر برٹش کونسل کو جس کے تحت اس نے 2018 ء تک انگریزی پڑھانے والے دس لاکھ اساتذہ کواسکولوں میں انگریزی تعلیم کا طریقہ بہتر بنانے کے لئے تربیت دینے کاعہد کیا ہے. ہم صحت کے شعبے میں بھی اہم کام کررہے ہیں جہاں ، مثال کے طور پر دس لاکھ زچگیوں میں برطانوی تعاون کے حامل پیشہ ور افراد نے مدد دی ہے.
لیکن یہ سب سوئی کی نوک کے مترادف ہے۔ ہمارے مشترکہ کام میں ٹیکس جمع کرنے اور غربت سے بچاوسے لے کردہشت گردوں کو سزائیں اوربہتر بنائے گئے دھماکہ خیز آلات پر قابو پانا شامل ہے.
تو میں اگلے تین سال میں کیا خاص بات پیدا کرنا چاہونگا؟ آپ سمت میں کسی انقلابی تبدیلی کی توقع مت رکھئیے گا۔ ہمارا کمٹ منٹ طویل مدت کے لئے ہےاور میرے پیش روفلپ بارٹن نے بہت عمدہ کام کیا ہے۔ ان کی طرح میرا بھی یہ ماننا ہے کہ پاکستان بلندی کی طرف گامزن ہے.
لہذا سب سے پہلی بات یہ کہ سلامتی، علاقائی استحکام اور دوسرے فوری نوعیت کے چیلنج بدستور ہنگامی رہیں گے۔۔ تاہم دوسری بات یہ کہ مجھے امید ہے کہ اس نسبتامستحکم دور میں ہم طویل مدتی چیلنجز پر اپنے مشترکہ کام پر زیادہ توجہ دے سکیں گے جو مستقبل میں پاکستان کی خوشحالی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ چیلنجز جو اقتصادی ترقی، گورننس، صحت اورتعلیم سے متعلق ہیں اوران سے بھی جو جغرافیائی اورماحولیات و آبادیات کے شعبوں میں پائَے جاتے ہیں۔ 2018 ء کے انتخابات اس عزم کے لئے بہت اہم ہونگے، ایک ایسا موقع جو جمہوریت ، جمہوری اداروں کو مزید مستحکم کرسکے گا ۔ میں چاہونگا کہ برطانوی کاروبار پاکستان کی معیشت کی ترقی میں کردار ادا کریں۔ ہم دونوں میں تجارت 2014 ء میں بارا فی صد بڑھی ہے تاہم یہ اتنے اہم شراکت دار ملکوں کے لحاظ سے اب بھی کم ہے۔ میں اس میں تبدیلی کے لئے ہر ممکن کوشش کرونگا۔ برطانیہ میں پاکستان کے زبردست ہائی کمشنر سید ابن عباس کا یہ عظیم عزم ہے کہ اپنی تعیناتی کی مدت ختم ہونے تک وزراء کے تمام اجلاسوں میں تجارت اور معاشی امور ایجنڈا میں سر فہرست رکھے جائیں ۔ میں اس کی بھرپور توثیق کرتا ہوں. آخر میں یہ کہونگا کہ میں دونوں ملکوں کے درمیان انسانی روابط کو بدستور پروان چڑھانا چاہتا ہوں۔یہ باقی تمام امور کے لئے بنیاد کا کام دیتے ہیں۔ثقافت، زبان اور کھیل بھی اہم ہیں۔ اوراس سے اچھا آغاز اور کیا ہوگا کہ اس موسم گرما میں پاکستانی کرکٹ ٹیم برطانیہ کا دورہ کرے۔ ان میچوں کے قریب اگر مجھے “ فوری کاموں” کے لئے برطانیہ واپس آنا پڑجائے تو آپ حیران مت ہوجائِے گا.
مختصرا ، یہ ایک ‘‘عظیم ملک میں شاندار فریضہ” ہوگا۔ بہت سے کام کرنا ہیں اور میں انہیں سر انجام دینے کا واقعی منتظر ہوں۔