سکریٹری خارجہ کا غزہ کے بارے میں بیان
سکریٹری خارجہ نے دارالعوام میں آج 14 جولائی کو غزہ بحران کے بارے میں برطانیہ کے ردعمل اور جنگ بندی کی ضرورت پر ایک بیان دیا ہے.
سکریٹری خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے:
ایوان کو علم ہے کہ امریکی سکریٹری خارجہ جان کیری کی شدید کوشش کے باوجود اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ اپریل کے اختتام پر ٹوٹ گیا اوراب معطل ہے.
اس کے بعد سے کئی خوفناک واقعات ہوئے ہیں جن میں تین اسرائیلی نوجوانوں کےاغوا اور قتل اورایک فلسطینی نوجوان کا زندہ جلایا جانا ہے۔ ہم ان وحشیانہ جرائم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ معصوم شہریوں کے دانستہ قتل کا کبھی کوئی جواز نہیں ہوتا.
بڑھتی ہوئی کشیدگی کو غزہ سے اسرائیل پر راکٹوں کے مسلسل حملوں نے ہوا دی ۔ 14 جون سے7 جولائی تک شدت پسندوں نے 270راکٹ برسائے جس پراسرائیل نے فضائی حملوں سے جوابی کارروائی کی۔ راکٹوں کو شہریوں پر بلا امتیاز برسایا جاتا ہے اور ان کا نشانہ بڑے اسرائیلی شہر ہیں.
اسرائیل نے 7 جولائی کو آپریشن پروٹیکٹوایج شروع کردیا ۔اسرائیلی دفاعی فوج نے غزہ میں 1470 ٹھکانوں پر حملے کئے اور اسرائیل پرمزید 970 راکٹ پھینکے گئے۔240 اسرائیلی اس میں زخمی ہوئے ہیں.
غزہ میں آج تک کم ازکم 173فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں اور 1230 زخمی ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق 80 فی صد شہری ہیں جن میں تہائی تعداد بچوں کی ہے.
یہ چھ سال میں غزہ میں تیسری بڑی فوجی کارروائی ہے۔ اس میں دونوں جانب بے پناہ انسانی قیمت ادا کی گئی اور یہ ایسے وقت میں ہوا جب مشرق وسطی میں سلامتی کی صورتحال کئی دہائیوں کے مقابلے میں بدترین ہے۔ برطانیہ کے تین مقاصد ہیں۔ جنگ بندی کا حصول، انسانی مصائب کا خاتمہ اور امن مذاکرات کے امکان کو زندہ رکھنا جو کہ تشدد کے اس چکرکو توڑنے اور تباہی کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنےکی واحد امید ہیں۔ اب میں ہر ایک کو مختصرا بیان کرتا ہوں۔
پہلا، فوری جنگ بندی کی ضرورت جس پر راکٹ فائر اوراسرائیل کے غزہ پر حملے دونوں کو روکا جائے،اس جنگ بندی کی بنیاد نومبر 2012ء میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے پر ہو۔
اس معاہدے کی بحالی کے لئے اسرائیلی،فلسطینی اورمصر جیسے ممالک کی متحدہ کوششوں کی ضرورت ہوگی جسے عالمی برادری کی حمایت حاصل ہو۔ حماس میں اثر رکھنے والوں کو اسے راکٹ حملوں سے روکنا ہوگا۔ ہم اسرائیلی اور فلسطینی رہنماؤں اور اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں سے قریبی رابطے میں ہیں۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے 10 جولائی کو سلامتی کونسل کوبتایا کہ اسرائیل اورغزہ میں کھلی جنگ کا خطرہ ہے اور انتہائی پابندیوں کی اپیل کی۔
سنیچر کو ہم نے بقیہ سلامتی کونسل کے ساتھ مل کر بحران میں کمی، امن کی بحالی اور نومبر 2012ء کی جنگ بندی کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ اگر فوری جنگ بندی جس کے ہم سب خواہشمند ہیں ممکن ہو توہم سلامتی کونسل میں مزید اقدام کے لئے تیار ہیں۔
ایک بارجنگ بندی پر اتفاق ہوجائے تو یہ بہت اہم ہوگا کہ اس کی شرائط پر دونوں جانب سے مکمل عملدرآمد ہو۔ اور اس میں راکٹ حملوں اور دیگر قسم کے تشدد کا مستقل خاتمہ ہو۔ اس معاہدے پر عمل اس وسیع کوشش کا صرف ایک حصہ ہو جو غزہ میں صورتحال کی بہتری کے لئے ہو۔اس کے بغیر اس قسم کے تشدد کے مزید سلسلے ابھرنے کا خطرہ ہے۔
دوسرا، غزہ میں انسانی صورتحال کی بہتری کے لئے جو کچھ ممکن ہے وہ کریں گے۔ کم ازکم 17 ہزارغزائی شہری اقوام متحدہ کی پناہ کے متلاشی ہیں۔ لاکھوں افراد پانی، حفظان صحت اور بجلی کی کمی کا شکار ہیں اور ایندھن اور دوائیں خطرناک حد تک قلیل ہوچکی ہیں۔
بحران سے پہلے ہی آدھی سے زائد آبادی غذائی قلت کا شکار تھی، بڑی اکثریت امداد کی محتاج تھی ا ور بےشمار لوگ بے روزگار تھے۔ برطانیہ فلسطینیوں کوانسانی امداد، ریاستی تعمیراور معاشی نمو کے لئے 2015ء تک 349 ملین پاؤنڈ فراہم کررہا ہے اورغزہ کے عوام کے لئے 30 ملین پاؤنڈ سالانہ دے رہا ہے۔
ہم اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورک ایجنسی جنرل فنڈ میں تیسرے بڑے عطیات دینے والا ملک ہیں۔
تیسرا، ایک مذاکراتی دوریاستی حل ہی ہمیشہ کے لئے اس بحران کے خاتمے اور پائیدار امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔کوئی اور آپشن ایسانہیں جو دونوں عوام کے لئے امن اور سلامتی کی ضمانت دے سکے۔
اس کے لئے دونوں جانب کے رہنماؤں کی جانب سے امن کے لئے درکار جرآتمندانہ اقدامات کی ضرورت ہمیشہ سے کہیں زیادہ ہے۔
اسرائیل کے لئے اس کا مطلب مذاکرات کی جانب واپسی کے لئے کمٹمنٹ اور ایسے تمام اقدامات سے گریز ہوگا جو امن کے امکانات کو نقصان پہنچائیں۔ جس میں آبادکاری شامل ہے جس سے مذاکرات پراعتماد کو بہت دھچکا لگتا ہے۔ حماس کو یہ بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کوآرٹیٹ اصولوں کو ماننے اور امن کی کوششوں میں شامل ہونے پر تیار ہےیا تشدد اور دہشت کا ستعمال جاری رکھے گا جس سے غزہ کے عوام کے لئے بھیانک نتائج پیدا ہوتے ہیں۔
فلسطینی حکام کو قیادت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لئے دوبارہ آمادہ ہونا اورغزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لئے گورننس اور سلامتی میں پیش رفت کرنا ہوگا۔
ان تمام میں برطانیہ اپنا کردار ادا کرے گا اور امریکا اور یورپی ساتھیوں کے ساتھ قریبی تعاون سے کام کرے گا ، دونوں فریقین کی مذاکرات کے لئے حوصلہ افزائی کرے گا،فلسطینی اتھارٹی سے تعاون کرےگا اورحماس اور دوسرے انتہا پسندوں پر دباؤ قائم رکھے گا اور تنازع کے انسانی تباہی کے نتائج کو ختم کرے گا۔
متعلقہ فریقین کی جانب سے قیادت اور سیاسی عزم کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ دنیا ایک بار پھر خوف سے دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل پر راکٹ سےحملے ہورہے ہیں اور فلسطینی شہری ہلاک ہورہے ہیں۔ صرف حقیقی امن اور اس کے ساتھ ایک محفوظ اسرائیل اور ایک قابل عمل اور متصل فلسطینی ریاست ہی اس تشدد کے سلسلے کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔اور صرف فریقین ہی خود، ہماری مدد کے ساتھ ،امن قائم کرسکتے ہیں.
مزید معلومات
سکریٹری خارجہ ٹوئٹر پر @ولیم ہیگ
وزارت خارجہ ٹوئٹرپر @وزارت خارجہ
وزارت خارجہ اردوٹوئٹریوکےاردو
وزارت خارجہ فیس بک