پریس ریلیز

انسانی حقوق و جمہوریت رپورٹ 2012ء - بھارت

بھارت کا جمہوری ڈھانچہ مستحکم ہے، جس سے اس کے آئین میں انسانی حقوق کی ضمانت ملتی ہے۔

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Aleppo-karm-aljabal

Stock image from the FCO Human Rights Report 2012. Credit Basma

کیس اسٹڈی:بھارت

تازہ ترین صورتحال:30 ستمبر 2013ء

بھارت کا جمہوری ڈھانچہ مستحکم ہے، جس سے اس کے آئین میں انسانی حقوق کی ضمانت ملتی ہے۔ تاہم اپنے وسیع رقبے، اورسماجی و معاشی ترقی کی وجہ سے اسے بے شمار مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ برطانوی حکومت، بھارتی حکومت اورغیرسرکاری شراکت داروں کے ساتھ مل کران مسائل اور دیگر امورسے نمٹنے کے لئے اس کی استعداد بڑھانےاورمہارت کےباہم تبادلے کے لئے کام کررہی ہے، اس میں انسانی حقوق کا فروغ اورتحفظ شامل ہے۔

گزشتہ کیس اسٹڈی جائزے کے بعد جسٹس ورما کمیٹی نے) جسے بھارتی حکومت نے خواتین کے خلاف جرائم سے نمٹنے کے لئے بھارتی اداروں کی اہلیت کا جائزہ لینے کے لئے تشکیل دیا تھا( اپنی رپورٹ شائع کی جس میں کلیدی سفارشات پیش کی گئی تھیں مثلاعصمت دری کے مجرم کی کم از کم سزاسات سال سے بڑھاکر دس سال کی جائے اورعمر قید کامطلب ہو’ملزم کی باقی طبعی حیات’ جیل میں ہی بسر ہو۔

ان سفارشات کے بعد بھارت پارلیمنٹ نے کرمنل لا بل منظور کیا جو خواتین کے خلاف پر تشدد جرائم پر بھارتی قوانین کو مستحکم تربنانے کے لئے ہے۔ یہ بل ان سرکاری ملازمین کو بھی سزا دینے کے حق میں ہے جو جنسی جرائم کے ضمن میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہتے ہیں اوراس میں عورتوں کا پیچھا کرنے، دست درازی کرنے، نظری شہوت اور تیزاب سے حملے پر نئی سزائیں بھی رکھی گئی ہیں۔

عصمت دری کے سلسلے میں تیز رفتاری سے کیس نمٹانے والی 1800عدالتوں کے قیام کے منصوبے پر بھی کام ہوہا ہے۔ کئی ریاستوں جیسے دہلی، چھتیس گڑھ اورآسام میں ایسی عدالتیں قائم بھی ہوچکی ہیں اورسپریم کورٹ اوراب ہائی کورٹس میں نئے قوانین کے لئے 2 ہزار ججوں کی تقرری پر کام کیا جارہا ہے۔

نئی دہلی میں دسمبر میں ایک طالبہ کی عصمت دری اور قتل کے الزام میں گرفتار چار افراد کو 13 ستمبر کو سزائے موت سنادی گئی۔ چاروں افراد نے گرفتاری اور سزاکے خلاف اپیل دائر کردی ہے۔ ایک کم عمر نوجوان کو بھی مجرم پایا گیا تھا اور اسے ایک اصلاحی جیل میں تین سال قید کی سزا دی گئی تھی جو کسی کم عمر مجرم کے لئے سب سے زیادہ سزا ہے۔ چھٹے ملزم نے سماعت کے دوران ہی خودکشی کرلی تھی۔ خواتین کے حقوق کے سلسلے میں بھارت حکومت کے ساتھ برطانوی حکومت کےکام کے علاوہ نئی دہلی میں برطانوی ہائی کمیشن نے حال میں خواتین کے مسائل پر شہری معاشرے کی تنظیموں کے ساتھ کام کرتے ہوئےوزارت خارجہ برطانیہ کے دو منصوبوں کی منظوری دی۔ برطانوی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی- ڈیفڈ ، بدستور بھارت میں خواتین کے حقوق سے متعلق کئی سرگرمیوں سے تعاون کررہا ہےجس میں سرکاری اداروں میں تعلیم اور طبی پروگرام ہیں جن سے تعلیم کے حق اور گھریلوتشدد کے ضابطے پر عملدرآمدمیں مدد ملتی ہے۔ ڈیفڈ شہری معاشرے کو بھارتی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے میں بھی مدد دیتا ہے جو انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے باب میں کئے جاتے ہیں، جس میں مرکزی توجہ خواتین اور پسماندہ گروپوں جیسے دلت اور قبائلی شہریوں کے حقوق پر دی جاتی ہے۔

تازہ ترین صورتحال: 10 اپریل 2013ء

نئی دہلی میں دسمبرمیں ایک نوجوان طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی اوراس کی موت نےبھارت میں میڈیا اورعوام کی توجہ بڑے پیمانے پرمبذول کرالی اورخواتین کے حقوق کا مسئلہ تیزی سے ابھرآیا۔ اس واقعے کے بعدسے بھارتی حکام نے خواتین کے تحفظ کے لئے نئے اقدامات اختیار کئے ہیں جن میں فاسٹ ٹریک عدالتیں اورعوام کے تحفظ کے طریقے شامل ہیں۔ عصمت دری کے باب میں فاسٹ ٹریک عدالتیں کئی ریاستوں مثلا دہلی، چھتیس گڑھ اورآسام میں قائم کردی گئی ہیں۔عوامی تحفظ کے اقدامات میں ہیلپ لائنز، خواتین پولیس/ پراسیکیوٹرزکی تقرری اورپبلک ٹرانسپورٹ میں کیمروں کی تنصیب شامل ہے۔

بھارتی حکومت نے ایک عدالتی کمیٹی بھی مقررکی ہے جوعورتوں کے خلاف جرائم میں بھارتی اداروں کی استعداد کا جائزہ اورمزیدوسیع اصلاحات کی سفارشات کرے گی۔

حالیہ برسوں میں بھارتی حکومت نے عورتوں اورلڑکیوں کی حالت بہتربنانے کے لئے وسیع ترعزم کا مظاہرہ کیا ہےاور اس کے لئے نئے بڑے پروگرام شروع کئے اوران کو مالی امداددی ہےجن میں ماؤں کی صحت اورتعلیم میں ان کی شرکت کی اسکیمیں بھی شامل ہیں جس سے مزیدکئی لاکھ عورتوں اورلڑکیوں کو سہولیات فراہم کی جا سکی ہیں۔قانونی اصلاحات (جس سے گھریلوتشددکے خلاف کارروائی بھی ہو تی ہے)اوراس کے ساتھ میڈیا کی زیادہ دلچسپی بھی تسلیم شدہ رویوں اورحدود کو تبدیل کرہے ہیں۔2011ء اور2012ء میں عالمی اقتصادی فورم کی عالمی صنفی خلا رپورٹ میں بھارت کانمبر113ویں سے بہتر ہوکے 105 واں ہوگیا ہے۔ البتہ عدم مساوات، تعصب اورگھریلو تشدد خاص کربھارت کی غریب ریاستوں میں اب بھی عام ہے۔ بھارتی حکومت کے اعدادوشماربتاتے ہیں کہ 34 فی صد بھارتی عورتیں 15 سال کی عمرسے جسمانی تشدد کانشانہ بن رہی ہیں۔

برطانوی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی ڈیفڈکے بھارت میں منصوبوں میں عورتوں اورلڑکیوں کی حالت میں تبدیلی مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔اس میں تمام لڑکیوں کی ابتدائی تعلیم کی تکمیل،ماؤں کی اموات میں مزید کمی اورعورتوں اورلڑکیوں کے خلاف تشددکی روک تھام کے لئے قومی اورریاستی حکومتوں سے تعاون شامل ہے۔

ڈیفڈبھارت، کے دوبڑے شہری معاشرتی منصوبوں کے ذریعے بھی بھارت میں عورتوں اورلڑکیوں کی حالت بہتربنانے کی کوشش جاری ہے۔غریب ترین علاقوں کے شہری معاشرتی منصوبے سماجی علیحدگی پرتوجہ دے رہے ہیں کیونکہ وہ اجتماعی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ منصوبے بھارت کے غریب ترین اورسب سے زیادہ محروم طبقوں جیسے دلت، قبائلی عوام،مسلمان، معذورافراد اور خواتین کے لئے سب سے زیادہ کام کرتے ہیں۔عالمی این جی او پارٹنرشپ ایگریمنٹ پروگرام سماجی علیحدگی دور کرنے مقامی اورعالمی تجربے کی مدد لیتا ہے۔

برطانوی حکومت خواتین کے حقوق کے سلسلے میں بھارتی حکومت، میڈیا اورشہری معاشرے کے ساتھ مل کر کئی دو طرفہ سرگرمیاں سر انجام دیتی ہے۔ برطانوی وزارت خارجہ نے بھارتی شہری معاشرتی تنظیموں سے کئی چھوٹے چھوٹے مسائل کے لئے تعاون کیا ہے جو عورتوں کے حقوق اوران کے اختیارات کے فروغ سے متعلق ہیں

مزید معلومات:

انگریزی میں پڑھئیے اور تبصرہ کیجئیےانسانی حقوق و جمہوریت رپورٹ 2012ء - بھارت

انگریزی میں پڑھئیے اور تبصرہ کیجئیےانسانی حقوق و جمہوریت رپورٹ 2012ء- Full Report

Updates to this page

شائع کردہ 15 April 2013
آخری اپ ڈیٹ کردہ 20 October 2013 + show all updates
  1. Updated

  2. First published.