پریس ریلیز

جوہری عدم پھیلاؤمعاہدے پر نظرثانی کانفرنس2015ء

وزارت خارجہ کے وزیر ٹوبائس ایلووڈ نے نویں این پی ٹی نظرثانی کانفرنس کے اختتامئیے پر تبصرہ کیا ہے جو 22مئی2015ء کوبغیر کسی متفقہ نتیجےپر پہنچے ختم ہوگئی.

اسے 2015 to 2016 Cameron Conservative government کے تحت شائع کیا گیا تھا

ٹوبائس ایلووڈنے تبصرے میں کہا:

جوہری عدم پھیلاؤ معاہدہ(این پی ٹی) مجموعی طور پرپوری بین الاقوامی برادری کے لئے انتہائی اہم ہے۔ این پی ٹی نے جوہری اسلحے کی دوڑ کو روکنے میں بے مثال کردار ادا کیا ہے اوردنیا کومحفوظ رکھنے میں اپنا کرداربدستورادا کررہا ہے۔ نظرثانی کانفرنس2015ءمیں مختلف النوع ریاستوں کے نقطہ ہائے نظر میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت تھی لہذا اتفاق رائے کا چیلنج آمیزہونا قطعی امرتھا.

برطانیہ اوردوسرے ملکوں کی بہترین کوششوں کے باوجود اس سال کی نظرثانی کانفرنس کسی عملی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ اگرچہ مجھے اس پرمایوسی ہے کہ اتفاق رائے ممکن نہ ہوا تاہم برطانیہ این پی ٹی کے اہداف کی تکمیل کے لئے سرگرم کردارادا کرتا رہے گا۔ یہ معاہدہ عدم پھیلاؤ نظام کے لئے اہم سنگ میل ہے اورآج کا نتیجہ اسے تبدیل نہیں کرسکتا۔ تمام فریقین اس معاہدے کی ذمے داریوں اورکمٹمنٹس کے پابند ہیں جو وہ پہلے کرچکے ہیں.

گزشتہ کانفرنس منعقدہ 2010ءمیں ایک عملی منصوبہ منظور کیا گیا تھا جوتخفیف اسلحہ، عدم پھیلاؤ اورجوہری ٹیکنالوجی کے پر امن استعمال کے جامع روڈمیپ کی فراہمی کے لئے تھا۔ اس پر ہم پہلے ہی نمایاں پیش رفت کرچکے ہیں۔ ہم نے جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے کمٹ منٹ کا مسلسل مظاہرہ کیا ہے جو سردجنگ کے بعد سے جوہری طاقت میں 50فی صد کمی کے ذریعے اورفضائی ذرائع سے استعمال ہونے والے جوہری ہتھیاروں کوٹکڑوں میں تقسیم کرکےکیا گیا ہے.

برطانیہ نے2010ءمیں آپریشنل وارہیڈز کی تعداد میں 120تک کمی کا کمٹ منٹ کیا تھا جو ہم پورا کرچکے ہیں اوراس کے ساتھ اپنی وین گارڈ آبدوزوں کے ذریعے لے جائے جانے والے وارہیڈز کی تعدادبھی 40 کردی ہے۔ ہم مجموعی اسٹاک کی تعدادکو 2020ءکے وسط تک 180کرنے کے راستے پر بھی گامزن ہیں.

مزید معلومات

ٹوبائس ایلووڈٹوئٹر پر@ٹوبائس ایلووڈ

وزارت خارجہ ٹوئٹرپر @وزارت خارجہ

وزارت خارجہ فیس بک اور گوگل+

وزارت خارجہ اردوٹوئٹریوکےاردو

وزارت خارجہ فیس بک

اردوویب سائٹ

Media enquiries

For journalists

ای میل newsdesk@fco.gov.uk

Updates to this page

شائع کردہ 23 May 2015