مخدوش ممالک:ایران- تازہ ترین جائزہ: 31دسمبر2014
Updated 21 January 2015
ایران
تازہ ترین جائزہ: 31دسمبر2014ء
اکتوبراوردسمبر کے دوران ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تاہم، گزشتہ تین ماہ میں انسانی حقوق خاص طورپرسزائے موت، انٹرنیٹ فلٹرنگ اورخواتین کے مسائل کے سلسلے میں ایران میں عوامی بحث میں اضافہ دیکھنےمیں آیا ہے۔ یہ مباحثے کئی اعلی سطحی کیسوں کی وجہ سے شروع ہوئے۔ البتہ، عوامی بحث، جو کہ مثبت ہے، ابھی تک ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکی ہے۔ ادھرسزائے موت کے کثرت سے استعمال، مذہب و عقائد کی آزادی، آزادئی اظہاراورصحافیوں، انسانی حقوق کے دافعین، خواتین اورقیدیوں کے حقوق میں رکاوٹوں پربین الاقوامی تشویش جاری ہے۔
ایک ایرانی 26سالہ خاتون ریحانہ جباری کو 26 اکتوبرکو سزائے موت دے دی گئی۔ ان پرایک سابق انٹیلیجنس افسر کو قتل کرنے کا الزام تھا، ریحانہ کا کہنا تھا کہ اس شخص نے ان پرجنسی حملہ کیا تھا۔ مقدمے کے دوران شدید بین الاقوامی تشویش سامنے آئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ریحانہ کے اس بیان کی مکمل تفتیش نہیں کی گئی کہ اس واردات کے وقت ایک اورشخص بھی وہاں موجود تھا۔20 اکتوبرکو ایک18 سالہ لڑکا ایسے جرم کے الزام میں پھانسی چڑھا دیا گیا جو اس نے نابالغی میں کیا تھا۔ فردین جعفریان کو سڑک پر جھگڑے کے دوران اس کے ایک ہم جماعت کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اس وقت اس کی عمر14 سال تھی۔ یہ سزا بچوں کے حقوق کے کنونشن کی دفعہ 37 کے خلاف تھی جس پر ایران نے دستخط کر رکھے ہیں اور جو کہتی ہے کہ ‘’ جرم کے ارتکاب کے وقت اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو سزائے موت نہ عمر قید، جس میں رہائی کی گنجائش نہ ہو، نہیں دی جاسکتی ‘‘۔ ایک اورمثبت نکتہ فرانس 24 ٹیلی ویژن پر8 دسمبر کو ایرانی انسانی حقوق کمیٹی کے سربراہ محمد جواد لاریجانی کے انٹرویو میں سامنے آیا جب انہوں نے کہا کہ ایران منشیات کی نقل وحمل کے قوانین میں تبدیلی کی کوشش کررہا ہے جس سے’‘ایران میں پھانسی پانے والوں کی تعداد میں 80 فی صد کمی ہوجائے گی’‘۔
انٹرنیٹ فلٹرنگ پرایران میں بحث گزشتہ تین ماہ میں جاری رہی۔ عدلیہ کے وزارت اطلاعات ومواصلاتی ٹیکنالوجی کوایک ماہ کی مہلت دینے کے 12 دن بعد، جس میں چند سوشل میڈیا ویب سائٹس کو فلٹر کرنا اورموثرطریقے سے نگرانی کیا جانا تھا، وزیرمواصلات محمود واعظی نے کہا کہ’’ ہمارا ٹیکنیکل اور ٹیکنالوجیکل جائزہ بتاتا ہے کہ وائبر، واٹس ایپ یا ٹینگو جیسے سماجی نیٹ ورکس کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انہیں بند کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ’‘ان نیٹ ورکس کوعقلمندی سےاستعمال کریں تاکہ مستقبل میں ان کا استعمال جاری رہے’‘۔
برطانیہ اور ایران کی دہری شہریت کی حامل غنچہ قوامی کا کیس جنہیں جون میں والی بال دیکھتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا اکتوبر اورنومبرمیں چلتا رہا۔غنچہ قوامی پراسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور سرگرمی سے کام کرنے کاالزام عائد کیا گیا تھا۔ انہوں نے جیل میں کئی بار بھوک ہڑتال کردی اور ان کی صحت اور بہبود کے بارے میں سنگین خدشات پیداہوگئے۔ 23نومبر کو انہیں ایک سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن فورا ہی ضمانت پر رہاکردیا گیا۔ وہ اس سزاکے خلاف اپیل کریں گی جس میں تین سال تک سفر پر پابندی شامل ہے۔
اکتوبر میں صوبہ اصفہان میں عورتوں پرخصوصی اسلامی لباس نہ پہننے پر تیزابی حملوں کے چندواقعات ہوئے ۔ ابتدا میں سوشل میڈیا پر دعوی کیا گیا کہ ان حملوں میں حکومت کاہاتھ ہے لیکن اب یہ مانا گیا ہے کہ یہ ایک تنہا شخص کی حرکت ہے۔ کئی ایرانی اسلامی رہنماؤں نے ان حملوں کو غیراسلامی قرار دیا ہے۔ تیزابی حملوں کے ردعمل میں تہران اوراصفہان میں25 اکتوبر کو حملوں کے خلاف پولیس اور سرکارکی غیر موثر کارروائی پرمظاہرے کئے گئے ۔ ان مظاہروں میں بھاری تعداد میں پولیس موجود تھی جو اس کے خلاف تھی اوراصفہان میں تصادم کی اطلاعات بھی ملیں کہ وہاں پولیس نے آنسو گیس، مرچوں کا اسپرے اوربیٹن استعمال کرکے مجمع کو منتشر کرنا چاہا۔
ایران میں مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک اورہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔اکتوبر میں تین مسیحی مبلغوں کوجن میں بہنام ایرانی شامل تھے، جیل میں اضافی چھ ماہ قید کی سزادی گئی ان پر ہاؤس چرچ تحریک میں ملوث ہونے کاالزام تھا ۔ تینوں رہنما پہلے ہی جیل میں بندتھے۔ لیکن ان پر’’ قومی سلامتی کے خلاف کارروائی ‘’ اور’’ نظام کواکھاڑ پھینکنےکے لئے نیٹ ورک بنانے ‘’ کے اضافی الزامات عائدکئے گئے۔ کرسمس کے دن یہ اطلاع ملی کہ سیکیورٹی فوسزنے تہران کے نزدیک رضوان شہر میں ہاؤس چرچ پر حملہ کیا۔ نو مسیحی گرفتار ہوئے جن میں دوپادری شامل تھے جو چرچ سروس کررہے تھے۔
برطانیہ نے31 اکتوبر کواقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل جنیوا میں ایران میں انسانی حقوق کے عالمی میعادی جائزہ ریکارڈ میں تعاون کیا۔ برطانیہ نے ایک بیان دیا جس میں انسانی حقوق کے بارے میں چندخدشات ظاہر کئے گئے تھے، جیسے کہ سزائے موت کے استعمال میں شدت سے اضافہ اورمذہب و عقیدے کی آزادی، آزادئی اظہار، مناسب کارروائی اور خواتین کے مسائل پر قدغن جیسے امور تھے۔ برطانیہ نے دوسفارشات بھی پیش کیں جن سے انسانی حقوق کے باب میں ایران کے طریقہ کارمیں بہتری کے لئے اہم کرداراداہو سکے گا۔:یعنی کم عمر بچوں اور ان افراد کی سزائے موت پر فوری پابندی جن کے جرائم’‘بے حدسنگین’’ شمار نہیں کئے جاتے اور قیدیوں کو سماعت سے پہلےنظر بندی کے ہر مرحلے پروکیل تک رسائی۔ ایران سے توقع ہے کہ وہ ان سفارشات پر مارچ 2015ء میں اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل سے پہلے عملدرآمد کرے گا۔