Corporate report

مخدوش ممالک:پاکستان- تازہ ترین جائزہ: 31دسمبر2014

Updated 21 January 2015

This was published under the 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government

پاکستان

تازہ ترین جائزہ: 31 دسمبر 2014

پچھلے تین مہینوں میں وسیع پیمانے پر اور انتہائی درجہ کی انسانی حقوق کی پامالی جاری رہی ہے۔ سال کے آخر میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین دہشتگردی کا واقعہ ہوا جس کے بعد حکومت نے دہشتگردی کے مقدمات میں سزائے موت دینے کا اعلان کر دیا۔

قانون، انصاف اور انسانی حقوق کی وزارت کی رپورٹ کے مطابق 2013ء میں انسانی حقوق کی پامالی کے 5,297 مقدمات رجسٹر ہوئے تھے جن میں تیزاب پھینکنے، گھریلو تشدد، عصمت دری، اغوا، گمشدہ افراد اور فرقہ ورانہ تشدد جیسے واقعات شامل ہیں۔

اکتوبر میں سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے چیرمین افراسیاب خٹک نے انسانی حقوق کے قومی کمیشن کے قیام میں سست روی پر تشویش کا اظہار کیا۔ خٹک نے کیا کہ یہ ضروری ہے کہ یہ کمیشن جلدی کام شروع کرے تاکہ انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات میں کمی ہو۔

بلوچستان میں شیعہ مسلمانوں، بلوچ اور غیر بلوچ قوم پرستوں پر حملوں کے واقعات پر تشویش ہے۔ اکتوبر کے اواخر میں تین گمشدہ بلوچ کارکنوں کی لاشیں کراچی سے ملیں۔ اسی مہینے میں حب میں پنجاب کے آٹھ مزدوروں کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ نومبر میں کالعدم بلوچ لبریشن ارمی کے حملے میں کوئٹہ میں پانچ لوگ قتل اور دو زخمی ہوئے تھے۔

جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے دسمبر میں، جو 43 شہری معاشرےاور غیر حکومتی تنظیموں پر مشتمل ہے، سندھ میں گمشدہ افراد اور ماو رائے عدالت ہلاکتوں میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا اور الزام لگایا کہ 112 لوگ گمشدہ اور 27 لاشیں ملی ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلی سید قائم علی شاہ Sindh Chief Minister Syed Qaim Ali Shahنے کیا کہ صوبائی حکومت ان واقعات کی انکوائری کرے گی۔

سندھ میں غیرقانونی قید کی اطلاع ملنے پرتین کھیتوں سے 80 سے زائد مزدوروں کو قید سے آزاد کرایا گیا۔ واک فری فاوندیشن نے نومبر میں دوسری سالانہ غلامی کے انڈیکسannual slavery index کو شایع کیا۔ دس ممالک میں دنیا کے 71٪ غلام بستے ہیں، پاکستان، جوانڈیا اور چین کے بعد تیسرے نمبر پر ہے، میں تقریباً2.1 ملین غلام ہیں جو آبادی کا 1.13٪ فی صد حصہ ہیں۔

اکتوبر میں حکومت کی یوٹیوب پر پابندی امیدوں کے برعکس تیسرے سال میں بھی جاری ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس پابندی کے خلاف ایک پٹیشن کی سماعت کی جس میں کچھ گروپوں کی جانب سے درخواست کی گئی کے اس پابندی کے برقرار رکھنے سے علم حاصل کرنے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔ نومبر میں فیس بک نے بتایا کہ پاکستان ٹیلیکمیونیکیشن اتھارٹی اور آئی ٹی کی وزارت کی جانب سے مواد کو محدود کرنے کی درخواستوں میں جنوری اور جون 2014ء کے دوران تقریباً دس گنا اضافہ ہوا نسبتاً اس کے پچھلے چھ مہینوں کے۔ اطلاعات کے مطابق ان مہینوں کے دوران حکومت کی طرف سے فیس بک استعمال کرنے والوں کی معلومات تک رسائی کی 116 درخواستیں ملی تھیں ۔

اکتوبر میں توہین رسالت کی مد میں ایک نجی ٹیلیویژن شو کی میزبان پر الزامات لگے تھے کہ انہوں نے ایک فرضی شادی سجائی اور مذہبی شخصیات کے بارے میں توہین آمیز کلمات بولے۔ پنجاب میں حافظ آباد میں الگ الگ واقعات میں دو صحافیوں کو مار دیا گیا۔ اسی مہینے کے آخر میں پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے اے آر وائی نیوز کا لائیسنس 15 دن کے لئے معطل کر دیا تھا، دس ملین روپے کا جرمانہ عائد کیا اور اس کے ایک نیوز شو کے میزبان پر عدلیہ کو مبینہ طور پر بدنام کرنے کے الزام میں پابندی لگا دی تھی۔ نومبر میں پاکستان ٹیلیویژن کا ایک صحافی کوئٹہ سے اغوا ہوا تھا۔

سولہ اکتوبر کو کافی تاخیر اور التوا کے بعد آسیا بی بی، ایک عیسائی عورت جسے توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی، اس کی سزا کو لاہور ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔ یورپین یونین نے برطانیہ کی حمایت سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا اور امید ظاہر کی کہ اپیل میں سزا میں نرمی کی جائے گی۔ نومبر میں چکوال کے ایک عیسائی آدمی کو توہین رسالت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے انٹرنیٹ بلاگ میں توہین آمیز زبان استعمال کرنے کا الزام تھا۔

4 نومبر کو پنجام میں ایک عیسائی جوڑے کو قران کی بےحرمتی کے الزام میں پٹائی کر کے مار دیا گیا تھا اور ان کی لاشوں کو ان کی ملازمت کی جگہ پربھٹی میں جلا دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے واقعے کی فورا مذمت کی۔ پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف نے ان قتل کے واقعات کی تفتیش کے لیئے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی اور پولیس کو عیسائی محلوں میں اضافی سیکورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا۔ 5 نومبر کو انسانی حقوق کی وزیر بیرونس جوائس انیلے نے ایک ٹویٹ جاری کیا جس میں انہوں نے نفرت کا اظہار کیا اور پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ اس واقعہ کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ مشتبہ افراد میں سے چار جن میں بھٹی کا مالک بھی شامل تھا ان کو گرفتار کر کے عدالتی ریمانڈ پر بھیج دیا گیا تھا۔

نومبر اور دسمبر میں برطانوی وزیر آعظم اور سیکریٹری خارجہ نے وزیر آعظم نواز شریف سے توہین رسالت کے قوانین کے غلط استعمال پر برطانوی تشویش کا اظہار کیا تھا۔

کراچی، راولپنڈی، ساہیوال اور سرگودھا میں فرقہ ورانہ قتل کے واقعات ہوئے جن میں شیعہ اور سنی مسلمان سیاسی جماعتوں کے کارکن ملوث تھے۔ مسلم اور غیر مسلم برادریوں کو بھی اس دوران حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اکتوبر میں چھ ہزارہ افراد جن میں ایک عورت اور ایک بچہ شامل تھے کوئٹہ میں ہزارہ ٹأؤن میں ایک خودکش بمبار کے حملے میں مارے گئے۔ اس حملے کی ذمے داری جیش الاسلام نے قبول کی۔ اسی مہینے میں آٹھ ہزارہ آدمیوں کو کوئٹہ کے مضافات میں ایک مارکیٹ میں مار دیا گیا۔ اس دوسرے حملے کی ذمے داری لشکر جھنگوی نے قبول کی۔

نومبر میں سندھ کے علاقے گھوٹکی میں ہندوؤں نے ایک بارہ سالہ ہندو لڑکی کو بازیاب کرنے کی مانگ کی جسے مبینہ طور پر اغوا کر کے اور جبرا مذہب تبدیل کر کے اس کی شادی ایک مسلمان لڑکے سے کرا دی گئی تھی۔ اس لڑکی کے والدین نے اپنے علاقے میں دھمکیاں ملنے کے بعد کیس کراچی منتقل کرنے کی درخواست کی تھی۔ اسی مہینے میں سندھ کے علاقے ٹنڈو محمد خان میں ایک ہندو مندر کو جلا دیا گیا تھا۔ پاکستان ہندو کونسل نے اس حملے کی مذمت کی اور ہندوؤں کی 1,400 مقدس جگہوں کی حفاظت کی مانگ کی۔

دسمبر میں ایک مشہور ٹاک شو پر مسلمان لیڈر کی احمدیوں کی مذمت کے پانچ دن بعد ایک احمدی آدمی کو گوجرانوالہ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ جیو ٹی وی نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ضابطہ اخلاق کے عملدرامد کا جائزہ لے گا۔ 2008ءمیں اسی چینل پر ایک ٹاک شومیں مذہبی علمأَ کرام نے احمدہوں کو واجب القتل کہا تھا اور اس کے ایک دن بعد ہی دو احمدیوں کو گولی مار کے ہلاک کردیا گیا تھا۔

دسمبر میں اقلیتی حقوق گروپ انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ شائع کی جو پاکستان میں اقلیتوں کو کنارے لگانے میں اضافے کے بارے میں تھی ۔ لندن میں قائم حقوق گروپ نے بتایا کہ اقلیتوں پرحملوں میں شدت آئی ہےاور یہ خطرناک سطح پر پہنچ گیا ہے: مذہبی اقلیتوں پر’’ متتشددحملے ان کی زندگی کے ہر پہلو پرقانونی اورسماجی امتیازکے پس منظرمیں ہوتے ہیں،’‘اور انتباہ کیا کہ ان امور سے نمٹنے کے لئےحکومت کی اہلیت ‘’ مستقبل میں پاکستان کے استحکام میں کلیدی سبب ‘’ ہوگی۔

اس عرصے میں ملک بھر میں خواتین، مرد اور جوڑے ‘ عزت کے نام پر قتل’ کئے جانے کی اطلاعات آتی رہیں۔اکتوبرمیں عورت فاؤنڈیشن نے سندھ میں جولائی اورستمبرکے دورانلڑکیوں اور عورتوں پر حملےکے 421واقعات کی اطلاع دی ۔ فاؤنڈیشن نےپنجاب میں جنوری اور ستمبر کے درمیان تیزاب سے حملے کے 42 واقعات ریکارڈکئے (جو 2013ءکے پورے سال میں 35 تھے)،جن میں51 خواتین اور آٹھ مرد نشانہ بنائے گئے تھے۔انٹرنیٹ حقوق گروپ بائٹس فار آل نے اطلاع دی کہ پاکستان میں انٹرنیٹ پر عورتوں کے استحصال نے متشدد جسمانی حملوں کو جنم دیا اور شکایت کی سماجی میڈیا کمپنیاں اس کے بچاؤ میں سست رفتار رہی ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے بتایا کہ صرف پنجاب میں اس سال میں اب تک سائبر جرائم کی 170 شکایات موصول ہوئیں۔ سرگرم کارکنوں نے شکایت کہ آن لائن ہرآسانی کے بہت کم واقعات کی شکایت کی جاتی ہےکیونکہ پولیس اس پر بہت کم کارروائی کرتی ہے۔

برطانیہ نے 4.7 ملین پاؤنڈدیئے تھے تاکہ شمالی وزیر ستان میں ہونے والے حالیہ ملٹری آپریشن سے سب سے زیادہ مشکلوں سے دوچار بےگھر افراد کو پناہ، کھانے کی اشیا، پانی، صفائی کی چیزیں، کھانے بنانے کے برتن اور ترپال جیسی اشیا فراہم ہو سکیں۔ بین الاقوامی ترقی کے ڈیپارٹمنٹ نے حکومت سے امدادی ایجنسیوں تک آز ادانہ اور بلا رکاوٹ رسائی کی مانگ کی ہے اور حکومت کو یہ باور کرایا ہے کہ بین الاقو امی برادری صرف سویلین حکام کے ذریعے ہی حکومتی رد عمل کا ساتھ دے گی۔

اس عرصے کے دوران سزائے موت کےمزید فیصلے سنائے گئے جن میں فرزانہ پروین کے ، جو مئی میں لاہور ہائی کورٹ کے باہر ‘عزت کے نام پر قتل’ کے الزام میں قتل ہوئی تھی، چار مرد رشتہ دار بھی شامل تھے۔ اکتوبر میں سپریم کورٹ نے سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی پٹیشن کی سماعت کرنے کی حامی بھر لی ۔ درخواست گزار نے اس بات پہ ءر دیا کہ یہ قیدی ذہنی تشدد سے گزرے ہیں اور حکومت سے ان کی سزا کو عمر قید میں بدلنے کی مانگ کی۔ 2013ءمیں 226 لوگوں کو سزائے موت دی گئی تھی اور تقریباً 8,526 افراد سزائے موت کے منتظر تھے۔ 10 اکتوبر کو انسانی حقوق گروہوں نے مختلف شہروں میں’ سزائے موت کے خلاف عالمی دن’ منایا اور سزائے موت کو ختم کرنے کے لئے قانون سازی کا مطالبہ کیا۔

16 دسمبر کو پاکستانی طالبان عسکریت پسندوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا اور اس حملے کی وجہ قبائلی علاقوں میں آرمی آپریشنوں کی جوابی کاروائی بتائی۔141 لوگ بشمول 132 بچے اس حملے میں مارے گئے۔ اس حملے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے دہشتگردی کے کیسوں میں سزائے موت پر سے غیر رسمی پابندی ہٹانے کا اعلان کیا اور ان کیسوں کی سماعت کے لئے ملٹری عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا۔ سات سزا یافتہ عسکریت پسندوں کو دسمبر میں سزائے موت دے دی گئی جو 2008ء کے بعد پہلی سویلین پھانسیاں تھیں۔