مخدوش ممالک: پاکستان-تازہ ترین جائزہ : 31 مارچ 2014ء
Updated 21 January 2015
پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال میں 2014ءکے پہلے تین ماہ میں کوئی نمایاں بہتری پیدا نہیں ہوئی اور تشدد کے واقعات جاری ہیں۔ سال کا آغاز ملک بھر میں فرقہ وارانہ حملوں سے ہوا۔ یکم جنوری کو ایک خودکش بمبار نے دھماکا خیز مواد سے بھری گاڑی شیعہ زائرین کی بس سے ٹکرادی جو ایران سے آرہے تھے۔ اس میں ایک شخص ہلاک اور 34 زخمی ہوئے۔ کالعدم عسکری جماعت جیش الاسلام نے اس کی ذمے داری قبول کی اور اسے عاشورہ کے دن ان کے راولپنڈی میں مدرسے پرحملے کاجواب قرار دیا۔ گزشتہ تین ماہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں شیعہ اور سنی ہلاکتوں کی اطلاعات آئی ہیں۔
جنوری میں ہزارہ برادری پر بلوچستان میں ایک اور حملہ ہوا۔ لشکرجھنگوی (سنی دہشتگرد تنظیم)کے خودکش بمبارکےہاتھوں 25 ہزارہ شیعہ زائرین ہلاک ہوئے۔سینکڑوں ہزارہ باشندوں نے 48 گھنٹے تک کوئٹہ میں دھرنا دیا اورمیتوں کو دفنانے سے انکار کردیا، حتی کہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان ہزارہ نمائندوں سے ملے اور انہیں کارروائی کا یقین دلایا۔ کوئٹہ اورایران کی سرحدوں کی درمیانی سڑک اس حملے کے بعد عارضی طور پر بند رہی جس سے سینکڑوں زائرین پھنس کر رہ گئے۔ 215 افراد کو پاکستان فضائیہ نے ائر لفٹ سے کوئٹہ پہنچایا۔
اسی ماہ میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے 2013ء میں فرقہ وارانہ حملوں کی تعداد میں اضافے کی رپورٹ دی۔ اطلاعا ت کے مطابق 208 حملوں میں 658 اموات ہوئیں اور 1195 افراد زخی ہوئے۔خودکش حملوں کی تعداد میں 39 فی صد اضافہ ہوا۔ بلوچستان میں 2013ء میں 33 فرقہ وارانہ حملوں میں سے 22 حملے کوئٹہ ضلع میں ہوئے جو ہزارہ اور شیعہ افراد کا گڑھ ہے۔
انسٹی ٹیوٹ برائے سماجی انصاف نےجو محنت کش بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی این جی او ہے، پنجاب سے اطلاع دی کہ 2013ء میں گھروں میں کام کرنے والے 21 بچوں پرتشدد کیا گیا جن میں سے 8 کی موت واقع ہوگئی۔ پاکستان میں گھروں میں کام کرنے والےکم عمربچوں کے لئے علیحدہ قوانین نہیں ہیں۔ جنوری میں ایک دس سالہ ملازمہ کو لاہور میں مالکان نےمارپیٹ کرکے ہلاک کردیا، اس پر چوری کا الزام تھا۔فروری میں لاہور میں ہی ایک گھریلو ملازمہ اپنے مالکان کے گھر میں گلا گھونٹ کر ہلاک کردی گئی۔
مارچ میں پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے اسلامی نظریاتی کونسل کے مطالبات کی مذمت کی اور انہیں ‘’ عورتوں اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق پر ظالمانہ حملہ’’ قرار دیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے جو ایک مشاورتی بورڈ ہے، شادی کے قوانین میں ترامیم کی سفارش کی تھی تاکہ مردوں کو دوبارا شادی کرنے کے لئے موجودہ بیوی سے اجازت لینے کی ضرورت نہ پڑے۔ کونسل کے چئیرمین نے بچوں کی شادی کو روکنے والے قوانین کو ‘‘غیر اسلامی’’ قرار دیا ۔ مارچ کے اختتام پرسندھ اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارشات کے خلاف منظور کی اور وفاقی حکومت سے کونسل کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ وہ’’ پاکستان کواس کی قوت برداشت سے زیادہ نقصان پہنچارہی ہے ۔’’
17 مارچ کو شکار پور سندھ میں دو لڑکیوں کو عزت کے نام پر قتل کردیا گیاانہوں نے برادری سے باہر کے مردوں سے شادی کرلی تھی۔ایک غیر قانونی جرگے نے ایک مقامی سیاستداں کی صدارت میں دونوں مردوں پران لڑکیوں کے اغوا کے الزام میں 28 لاکھ پاکستانی روپئے جرمانہ عائد کیا لیکن لڑکیوں کے قتل کو نظر انداز کردیا گیا۔ میڈیا کی رپورٹس کے بعد چیف جسٹس نے 13 افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا جس میں جرگے کے لیڈر بھی شامل تھے اور مقامی پولیس نے ایک تفتیشی ٹیم مقرر کردی۔
گزشتہ تین ماہ میں مسلم اورغیر مسلم اقلیتوں پر حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ جنوری میں کراچی میں ایک صوفی مزار پر چھ افراد ہلاک کردئیے گئے، اس حملے کا شبہ پاکستانی طالبان پر تھا۔سیالکوٹ اور بلوچستان میں صوفیا کے مزاروں کی بے حرمتی کی گئی اور آگ لگادی گئی۔ فروری میں ایک روحانی علاج کرنے والے کے گھر پر کراچی میں 8 افراد کو ہلاک اور 17 کو زخمی کردیا گیا۔ اسی ماہ میں پاکستانی طالبان نے کلاش اور اسمعیلی کمیونٹیز کو دھمکی دی کہ وہ اسلام نہ لائے تو ان پرحملہ کیا جائے گا۔ مارچ میں ایک ہندو مندر کو لاڑکانہ میں تباہ کردیا گیا وہاں قران کریم کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کیا جارہا تھا۔مارچ کے اختتام پر حیدرآباد کے ایک ہندو مندر کو آگ لگادی گئی۔
پولیو ورکرز کو اس عرصے میں پھر نشانہ بنایا گیا ۔ یکم مارچ کو 13 افراد کو سڑک پر نصب بم کے دھماکے میں ہلاک کردیا گیا،وہ خیبر قبائلی علاقے میں پولیو مہم میں کام کررہے تھے۔ اسی ماہ بعد میں پشاور کے ایک پولیو ورکر کو اس کے گھر سے اغوا کرکے تشدد کرکے ہلاک کردیا گیا اور لورالائی میں ایک کانسٹیبل کو جو پولیو ٹیم کے ساتھ محافظت کررہاتھا گولی ماردی گئی۔ دسمبر 2012ء کے بعد سے ایک اندازے کے مطابق 60 پولیو ورکر ہلاک کئے جاچکے ہیں۔
کوئٹہ سے اسلام آباد تک بلوچوں کی جبری گمشدگی اور ہلاکت کے خلاف ایک احتجاجی مارچ فروری کے اختتام تک جاری رہا۔ ‘’ لاپتہ بلوچوں کی آواز’’ تنظیم نے الزام لگایا ہے کہ 18000 سے زائد بلوچ اس وقت لاپتہ ہیں۔ جنوری میں خضدار، بلوچستان میں ایک قبر سے کم از کم 13 مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ صوبائی حکومت نے پوسٹمارٹم اور ڈی این اے ٹیسٹ کے لئےایک خصوصی طبی بورڈ تشکیل دیا اور چیف جسٹس آف پاکستان نے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔مارچ میں اسی علاقے سے 4 مزید مسخ شدہ لاشیں ملیں۔
بلدیاتی انتخابات کی صورتحال چاروں صوبوں میں ابھی تک ملی جلی ہے، جنوری میں بلوچستان میں 98 بلدیاتی نشستوں پر ضمنی انتخاب پرسکون ماحول میں ہوگئے۔ فروری میں خیبر پختونخواہ حکومت نے صوبے کی دیہی اور نیبرہڈ کونسلوں کی تنظیم مکمل کرلی تاکہ اپریل میں مقامی سرکاری انتخابات ہوسکیں۔ سپریم کورٹ نے پنجاب اور سندھ میں جنوری میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو مزید ملتوی کرنے کی اجازت دی تاکہ حدبندی کی ضروری تبدیلی کا کام مکمل کیا جاسکے۔فروری میں فری اینڈفئیر الیکشن نیٹ ورک نے اطلاع دی کہ الیکشن ٹریبونل نےمئی 2013ء کے انتخابات سے متعلق 410 شکایات میں سے صرف 198 کا فیصلہ کیا ہے اور وہ 120 دن کی قانونی مدت پوری نہیں کرپائےگا۔
23 جنوری کو ایک 65 سالہ برطانوی شہری کو جسے ذہنی بیماری ہے، موت کی سزا سنائی گئی اس پر پاکستان کے مذہبی گستاخی قانون کے تحت کارروائی کی گئی تھی۔ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے سوال جواب سیشن میں کہا کہ وہ اصغر کے بارے میں’‘گہری تشویش’‘رکھتے ہیں۔ سینئیروزیرمملکت بیرونس سعیدہ وارثی نے اس کیس کو وزیر اعلی پنجاب کے سامنے اٹھایا اور وزارت خارجہ برطانیہ اور برطانوی ہائی کمشنر نے پاکستانی حکام سے لابنگ کی ۔ برطانوی ہائی کمیشن اصغر کی کونسلر امداد کررہا ہے تاکہ اس کی صحیح دیکھ بھال ہوسکے اور اس کی قانونی نمائندگی ہوسکے۔ مارچ میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے مذہبی گستاخی کے قانون کے تحت گرفتار قیدیوں کے بارے میں رپورٹ جاری کی ۔ اس میں بتایا گیا کہ یہ قانون دیگر قوانین کے مقابلے میں غیرمساوی طور پر استعمال ہوا ہے، 14 افراد موت کی کوٹھری میں ہیں،19 عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں اور کئی سزاکے منتظر ہیں۔28 مارچ کو لاہور کے ایک مسیحی ساون مسیح کو گستاخی مذہب کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔ اسے پہلے مارچ 2013ء میں جوزف کالونی میں فسادات بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جب 100 سے زیادہ گھر جلادئیے گئے تھے۔
پاکستان میں آزادئی اظہار گزشتہ تین ماہ میں بڑھتے ہوئے دباؤ کے زیر اثر رہی ہے۔ جنوری میں پاکستانی طالبان نے 20 سے زائد صحافیوں اور پبلشروں کی ہٹ لسٹ جاری کی جن پر طالبان کی غلط نمائندگی کا الزام ہے اسی ماہ میں ایکسپریس نیوز کے تین ملازمیں کو کراچی میں ہلاک کردیا گیا۔اس عرصے میں لاڑکانہ اورمانسہرہ میں بھی صحافیوں کو قتل کیا گیا۔مارچ کے اختتام پر صحافی اور ٹی وی اینکر رضا رومی جو طالبان کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے مشہور تھے، لاہور میں ایک حملے میں بال بال بچ گئےالبتہ ان کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا۔ برطانوی ہائی کمشنر نے رضارومی پر حملے کی مذمت میں اسلام آباد سے ایک بیان جاری کیا اور پاکستان کے تمام صحافیوں کی مشکل حالات ا میں اپنے اہم فرائض کی انجام دہی کی حمایت کا اظہار کیا۔