مخدوش ممالک- پاکستان-تازہ ترین جائزہ:30 جون 2014ء
Updated 21 January 2015
انسانی حقوق کی پاکستان میں صورتحال میں گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی اور مستقل اور وسیع خدشات برقرار ہیں۔
مارچ میں ہم نے مقامی میڈیا کے لئے ماحول کومزید خطرناک ہوتے دیکھا۔اپریل میں لاہوراورپشاور میں صحا فیوں کوموت کی دھمکیاں ملیں اورایک صحافی کے گھر پر گرینیڈ پھینکا گیا۔اسی مہینے میں سینئیر صحافی اور جیو نیوز ٹی وی اینکر حامد میر کو کراچی میں ایک حملے میں شدید زخمی کردیا گیا۔حملے کی عالمی مذمت کی گئی اور وفاقی حکومت نے تحقیقات کے لئے سہ رکنی عدالتی کمیٹی قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ مئی اور جون میں صحافیوں پر مزید حملوں کی اطلاعات آئیں۔
ایمنیسٹی انٹر نیشنل نے مئی میں رپورٹ دی کہ’‘میڈیا برادری بھرپور محاصرے میں ہے’‘اور’‘جو قومی سلامتی امور یاانسانی حقوق کی خبریں دیتے ہیں وہ ہر طرف سے نشانہ بن رہے ہیں جس میں ان کی خبروں کو خاموش کرنے کے لئے بدسلوکی کا ایک بدترین سلسلہ چل رہا ہے۔’’ مئی میں عالمی یوم آزادئی صحافت پراسلام آباد میں یورپی یونین کمیشن نے یہ کہہ کراپنی تشویش ظاہر کی کہ پاکستان میں صحافیوں کے لئے’‘ماحول مسلسل خراب ہورہا ہے۔’‘برطانوی ہائی کمشنر نے ‘‘پاکستان میں سب سےکہا کہ آزاد اور منصفانہ صحافت کی معاونت کریں جہاں صحافی اپنی اہم ذمے داریوں کو کسی خوف، دھمکی یا ہراسانی کے بغیر پورا کر سکیں۔’‘اسی مہینے میں دو بھارتی صحافیوں کو جو پاکستان میں کام کررہے تھے،ملک چھوڑنے کے لئے کہاگیا اور بغیر کسی وضاحت کے ان کے ویزے کی تجدید نہیں کی گئی۔
جون میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جیو نیوز کا لائسنس 15 دن کے لئے معطل کردیا اور ایک کرورروپئیے کا جرمانہ عائد کیا۔ یہ وزارت دفاع کی ایک شکایت کے جواب میں کیا گیا تھا کہ چینل کی رپورٹنگ کی وجہ سے مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی بدنامی کا شکار ہوئی۔ جون میں اے آر وائی نیوزاورجیو انٹرنیشنل کے لائسنس مبینہ طور پرمتنازعہ مواد نشر کرنے کی وجہ سے 15 دن کے لئے معطل کئے گئےاورہرایک کو ایک کرورروپئیے کا جرمانہ کیا گیا۔
مئی میں اس وقت امیدیں جاگ اٹھیں کہ یوٹیوب(جو 2012ء سے بند تھی) کھول دی جائے گی جب قومی اسمبلی نے قرارداد منظور کی کہ حکومت فوری طور پراس کو کھولنے کے اقدامات کرے۔جون میں ٹوئٹر نےپچھلے بلاک کردہ مواد تک رسائی بحال کردی جنہیں’‘توہین آمیز’’ قراردیا گیا تھا۔ البتہ اسی ماہ میں فیس بک ایک پاکستانی مقبول بینڈ کا اکاؤنٹ بلاک کرنے پر رضامندہوگئی۔
ملک بھر میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں کی اطلاعات جاری رہیں۔ اپریل میں انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ 2013ء میں فرقہ وارانہ تشدد میں 687 جانیں ضائع ہوئیں جو 2012ء کے مقابلے میں 22فی صد زیادہ ہیں۔اپریل میں ہی دوہزارہ شہریوں کو کوئٹہ میں گولی مار کے اورجون میں 30 شیعہ زائرین کو ایران سے واپسی پرسرحدی شہر تافتان میں خودکش حملے میں ہلاک کردیا گیا۔ لشکرجھنگوی سے وابستہ ایک گروپ نے دونوں واقعات کی ذمے داری قبول کرلی تھی۔ جون کے آخرمیں ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ جاری کی ،’‘ہم چلتے پھرتے مردے ہیں’‘،جس کے تحت ‘‘فرقہ وارانہ تشدد میں بےمثال اورتشویشناک اضافے’’ کا بتایا گیا تھا جس کانشانہ بلوچستان میں شیعہ ہزارہ تھے اور حکومت پر زور دیا کہ وہ فرقہ وارانہ ہلاکتوں کی تحقیقات کرائے اورسزائیں دے۔
مئی میں سندھ میں ہندو مندروں پر مزید حملے کئے گئے۔ پاکستان ہندو کونسل نے ہندوؤں کے لئے حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کیا اور دعوی کیا گزشتہ پانچ سال میں 25 ہزارہندو بھارت نقل مکانی کرگئے ہیں۔ سکھ برادری نے مئی میں مقدس مقامات پر حملوں اور اپنی مقدس کتاب کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کیا، انہوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے احاطے میں داخل ہوکے دھرنا دیا تھا۔ سندھ میں پولیس نے مذہبی اقلیتوں پر حملوں کو روکنے کے لئے ایک حفاظتی منصوبے کا اعلان کیا اور جون میں خیبر پختونخواہ کے وزیراعلی نے حکم دیا کہ مذہبی اقلیتی عبادتگاہوں پر حفاظتی اقدامات بڑھائے جائیں اور سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں۔
گوجرہ پنجاب کے ایک عیسائی جوڑے شفقت ایمانوئیل اور شگفتہ کوثرکو4 اپریل کوتوہین مذہب کے الزام میں سزائے موت دے دی گئی۔ جوڑے نے مبینہ طور پر ایک مقامی مسجد کے امام کوپیغمبر محمدﷺ کے بارے میں توہین آمیز ٹیکسٹ بھیجا تھا۔جوڑے کے وکیل کا کہنا تھا کہ ملزمان نے اس الزام سے انکار کیا ہے اور وہ ٹیکسٹ کسی ایسے موبائل سے بھیجا گیا تھا جو گم ہو چکا تھا۔ مئی میں سینئیر وکیل اور ایچ آر سی پی کے رکن راشد رحمن خان کو ملتان میں ان کے دفتر میں قتل کردیا گیا۔ وہ ایک یونیوسٹی لیکچررکا دفاع کررہے تھے جس پرتوہین مذہب کا الزام تھا اورانہوں نے شکایت کی تھی کہ انہیں دوسرے وکیلوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں ۔ اسی ماہ میں ایک لڑکا شرقپور پولیس اسٹیشن میں داخل ہوا اور ایک احمدی کو ہلاک کردیا جس پر توہین مذہب کا الزام تھا۔ توہین مذہب کے کئی کیس سیاسی اورمیڈیا کی توجہ کامرکزبنے ان میں ایک کیس ایک برطانوی شہری کا بھی تھا۔ برطانوی اہلکار اور وزرااپنی تشویش کا مسلسل اظہارکررہے ہیں اورپاکستانی وزیر اعظم کے دورہ لندن میں وزیراعظم برطانیہ اور دیگر نے توہین مذہب کے قوانین اورخصوصی کیسوں اور اصلاحات پر زوردیا تھا