تقریر

2014ء: جب سفارتکاری کے پہئیے کا رخ تبدیل ہوگا

سکریٹری خارجہ ولیم ہیگ نے 6 دسمبر کو بحرین میں منامہ مکالمے کے افتتاحی عشائیے میں ایک اہم تقریر کی ہے.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا

سکریٹری خارجہ نے کہا:

“ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد ہمارے اولین فیصلوں میں سےایک خلیج میں برطانوی سفارتکاری کو متحرک کرنا اوراہم تعلقات کے باب میں گزشتہ وزراکی عدم توجہ سے ہونے والے نتائج کو دور کرنا تھا۔

آج برطانیہ میں اس خطے سے متعلق خارجہ پالیسی پر حکومتوں سے ہماری بہت زیادہ مشاورت ہوتی ہے، تمام سمتوں میں بہت دورے کئے جاتے ہیں اور ہمارے اقتصادی رابطوں کی تعمیر کے لئے کہیں زیادہ مربوط کوشش ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ مشرق وسطی کو مسئلوں کا خطہ قرار دیتے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ خطہ متعدد کامیابیوں اورمواقع کا بھی حامل ہے۔

خلیج پر ہمارا بے حد زور ہماری وسیع تر خارجہ پالیسی کا ایک حصہ ہےجسے ہم آگے بڑھارہے اور برطانیہ کی عالمی حیثیت کو وسیع تر کررہے ہیں۔ہم بیس نئے سفارتخانے قائم کررہے ہیں، ہم ابھرتی ہوئی طاقتوں سے نئے رشتے تشکیل دے رہے ہیں،ہم پرانی دوستیوں کی تجدید کررہے ہیں، ہم وزارت خارجہ کو مستحکم بنا رہے ہیں اورسفارتکاری اور تنازعات کی روک تھام پر دوبارا زور دے رہے ہیں۔ہم اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے اہم مباحثوں میں آگے آگے رہتے ہیں جہاں آج کے ووٹ کے بعد ہم اردن کے ساتھ کام کرنے کے منتظر ہونگے۔میں اپنے اردنی ساتھیوں کو سلامتیکونسلمیں منتکب ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں

2013ء وہ سال رہا جب سفارتکاری کی قدرو قیمت کا پوری طرح مظاہرہ ہوا۔ اس سال ہم نے مل کر مشرق وسطی امن عمل،شام اورایران کے باب میں سفارتکاری کے پہئیے کا رخ گھمادیا، ان خطوں میں سفارتکاری کئی سال سے اورایران کے معاملے میں تقریبا ایک عشرے سےمنجمد اور ساکت چلی آرہی تھی۔

بے شک ان کوششوں میں ہمارا حصہ ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ہماری اپنی حدیں بھی ہیں لیکن اس سے اس بڑی تبدیلی میں کوئی مجموعی رکاوٹ نہیں آتی جوہم نے مشترکہ طور پر عمل میں لائی ہے۔اپنے اپنے ملکوں میں فیصلہ سازی کے اتار چڑھاو جیسے کہ ہماری پارلمینٹ میں اگست میں شام پرہونے والی شدید بحث نے ہمیں پہیوں کارخ گھمانے سے نہیں روکا، نہ ہی کسی خاص لمحے کی نااتفاقی کو تزویری سمت میں تبدیلی سمجھا جانا چاہئیے.

آج میرا پیغام یہ ہےکہ 2013ء میں اتنی ساری قوموں کی سخت کوششوں کے بعد جو رخ تبدیل ہوا ہےہمیں ان پہیوں کواپنے کندھوں سے سہارا دیتے ہوئے 2014ء میں انہیں مضبوطی سے حرکت میں رکھناہے.

فلسطین و اسرائیل

“سب سے پہلے، 2014ء وہ سال ہونا چاہئیے جس میں دو ریاستی حل کو فیصلہ کن مرحلے تک پہنچنا ہے۔ میں امریکی سکریٹری خارجہ جان کیری کو مذاکرات کیبحالی کوممکن بنانے میں غیرمعمولی قیادت کا مظاہرہ کرنے پراوروزیراعظم بن یامین نتن یاہواور صدرمحمود عباس کو عمل شروع کرنے کی جرآت پرسلام کرتا ہوں۔ اب اسے متزلزل نہیں ہونے دینا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوا اورزمینی حقائق رونما ہوتے رہے تو دوریاستی حل ہمیشہ کے لئے اوجھل ہو سکتاہےہمت اورفیصلہ کرنے کی صلاحیت کی دونوں طرف ضرورت ہےاور یورپی یونین اورعرب ممالک کوتصفیے تک پہنچنے کے لئے محرکات فراہم کرنے میں اپنے کردارادا کرنے کے لئے تیاررہنا چاہئیے.

شام

دوسرے ، ہمیں 2014ء کوشام کے تنازع کارخ موڑنے کا سال بنانا چاہئیے۔ شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کامعاہدہ اور جینیوامیں دوسری امن کانفرنس کے لئے 22 جنوری کی تاریخ کاتعین روشنی کی ننھی سی کرن لے کے آیا ہے۔ شام کے تنازعے کا خاتمہ ایک غیرمعمولی دشوار مہم ہے۔ اس کے لئے فریقین کو خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں تصادم کی بجائے مذاکرات سے زیادہ فائدہ ہوگا.

ایران

“ اور 2014ء کو وہ سال ہونا چاہئیے جب ہم مشترکہ ایکشن پلان پرجسے ہم نے ایران کے ساتھ منظورکیا تھا، عملدرآمد کریں اور ایک جامع معاہدے کے لئے مذاکرات میں کامیاب ہوں۔

ہم ایرانی حکومت کی جانب سے جوہری مسئلے پران کے لہجے اورمواد میں تبدیلی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ وزیرخارجہ جوادظریف کے ساتھ اپنی معاملت میں میں نے ان کو سفارتی حل کے حصول میں مخلص پایا ۔ اب ہمیں سفارتکاری کی قوت کومکمل طور سے جانچنا ہے۔ کیونکہ اس کا متبادل یہ ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اپنے حالیہ راستے پر چلتا رہے یا خطے میں نامعلوم نتائج کے حامل تنازعات کا سنگین خطرہ رہے۔ گزشتہ ماہ ہم نے جنیوا میں جو طے کیا وہ ایک مستحکم عبوری معاہدہ تھا جس سے ایران کے جوہری پروگرام کو روک دیا گِا اورچند پہلووں سے رول بیک کردیا گیااوراس کے عوض پابندیوں میں محدود کمی آئی اور اس میں حتمی جامع معاہدے کے اصول طے کردئیے گئے۔ یہ محض پہلا قدم ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو خدشات کیوں محسوس ہورہے ہیں۔ تاہم بلاشبہ یہ مشرق وسطی میں مجموعی طور پر تحفظ کی طرف ایک اہم قدم ہے۔اب یہ نہایت اہم ہے کہ ہم ہرسمت سے نگرانی اورعملدرآمد کو یقینی بنائیں، باقی پابندیوں پرسختی سے عمل ہو تاکہ ایران کو جامع معاہدے سے اتفاق کی ترغیب رہے اور ہم ان حلوں کی تلاش کے لئے سخت محنت کریں کہ ایران کاجوہری ہتھیارنہ بنانا یقینی ہوجائے اور اس کے پڑوسی اورعالمی برادری ان انتظامات پر اعتماد کرسکے جو کئے جارہے ہیں.

میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ معاہدہ اس خطے میں ہمارے اتحاد کے لئے کمٹ منٹ میں کوئی کمی پیدا نہیں کرتا، نہ ہی سمندری راستوں کے تحفظ میں خامی لاتا ہے اور نہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں کمزوری بپا کرتا ہے۔ جوہری مسئلے پر رابطے کا مطلب ایران کو خطے کے دیگر مسائل کے باب میں کھلی آزادی دینا نہیں ہے .

بلاشبہ ان تینوں مسائل کی وجہ سے ہمیں مشرق وسطی کے بڑے مسائل سے غافل نہیں ہوینا چاہئیے۔ لیبیا،تیونس،مصر اور یمن مستحکم سیاسی اورمعاشی اصلاحات کی طرف گامزن ہیں،جن میں نمائندہ اورجوابدہ حکومتیں شامل ہیں،یہ کام نسلوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ ان تمام ملکوں میں خودمختار ادروں کی تشکیل، معاشی مواقع کی تخلیق اورانسانی حقوق اور سیاسی شراکت کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ ہم ان ملکوں کو عملی تعاون کی فراہمی جاری رکھیں گےجنہیں انقلاب سے گزرنا پڑا ہے اوران کا احترام کریں گے جو تبدیلیوں سے گزررہے ہیں۔ یہ بے پناہ اقتصادی اورسماجی مواقع کاخطہ ہے- دنیا کے لئے مستقبل کاپاور ہاوس اور یہ اسی وقت زیادہ چمک سکتا ہے جب سفارتکاری کے پہیوں کا رخ موڑ دیاجائے۔ لہذا ہمیں 2014ء کو وہ سال بنانے کی امید کرنا چاہئیے جس میں ہم شام کے تنازعے کا حل کریں، مشرق وسطی امن عمل کے لئے دوریاستی حل کو دسترس میں لائیں اور ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام کےجامع تصفیے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ اگر ہم نے یہ سب کرلیا تو ہم روشنی کی اس ننھی سی کرن کوجس کا ذکر میں نے ابھی کیا تھا، پھیلا سکتے ہیں اورنہ صرف اس خطے میں بلکہ تمام دنیا کے امن اور سلامتی کے لئے مستقبل میں مواقع پر بہت نمایاں اثر ڈال سکتے ہیں.’’

شائع کردہ 7 December 2013