تقریر

افغانستان: وزیراعظم کی حامد کرزائی کے ساتھ پریس کانفرنس

وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور صدرحامد کرزائی نے وزیر اعظم کے دورہ افغانستان کے دوران ایک پریس کانفرنس کی۔.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
The Rt Hon Lord Cameron

اس پریس کانفرنس کےاہم اقتباسات نیچے دئیے جارہے ہیں۔ مکمل پریس کانفرنس انگریزی میں ملاحظہ کیجیئیے۔

حامدکرزائی نے کہا

وزیراعظم افغانستاں کے دوست ہیں اور انہوں نے افغانستان کی تعمیر نو میں زبردست تعاون کیاہے، خا ص طور پر افغانستان اور پاکستان کے درمیاں رابطوں کی بہتری میں۔

ہم نے وسیع تر امور پر بات چیت کی جس میں ہمارے مفادات اورافغانستان کے خدشات شامل ہیں۔وزیراعظم اورمیں نے ہمارے پاکستان کے ساتھ تعلقات پر بھی بات کی۔ ہم نے اس تبادلہ خیال میں کلی طور پر واضح کیا کہ یہ ہم دونوں ملکوں کے لئے اہم ہے کہ ہمارے پاکستان کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات ہوں یہ نہیں کہ پاکستان اس کے خلاف افغانستان میں ایک تزویری گہرائی اپنانے کی کوشش کرے کیونکہ نہ تو افغان سرزمیں پاکستان کے خلاف استعمال کی جائے گی اور نہ ہی پاکستانی سرزمیں کو افغانستان کے خلاف استعمال کیا جانا چاہئیے۔ ہم دونوں ملکوں میں مضبوط اور دوستانہ تعلقات کی کوشش کررہے ہیں جو باہمی مفادات کے احترام کی بنیاد پر ہو۔ اس لئے ہم نے امن عمل کے تمام پہلووں پر بات کی اور یہ بھی کہ آگے بڑھنے کے لئے ہمیں ایک دوسرے سے تعاون کی ضرورت ہے۔

وزیر اعظم نے اپنے گزشتہ تمام کمٹ منٹس کی دوبارا توثیق کی۔ان کے اس دورے کا مقصد بھی یہی ہے کہ امن عمل میں برطانیہ کس طرح مدد کر سکتا ہے اور امن عمل میں سرعت لانے کے لئے کس طرح پاکستان اور افغانستان کے ساتھ کام کر سکتا ہے تاکہ ہم پرامید ہوسکیں

وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا

ہماری آج کی بات چیت بہت مفید تھی اور ہمارا ہدف مشترکہ ہے یعنی ایک محفوظ، مستحکم اور جمہوری افغانستان۔ ایسا ملک جو دہشت گردوں کی جائے پناہ نہ ہو، جو نہ ہماری قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہواور جہاں افغانوں کااپنا کنٹرول ہو اور وہ پر امن اور خوشحال مستقبل کی تعمیر کر سکیں جو ان کا حق ہے۔

ہم نے تین اہم امور پر بات چیت کی ہے: اس مشترکہ وژن پر ہماری پیشرفت، آئندہ کے مسائل اور ہماری لڑاکا فوج کے رخصت ہونے کے بعد برطانیہ اپنے مستحکم دوست افغانستان کے لئے کیا کردار جاری رکھے گا۔

آج افغان فوج اور پولیس اپنے 27 ملین شہریوں کے تحفظ کی ذمے داری کی قیادت کررہی ہے۔ جب میں 2006ء میں ہلمند آیا تھا تو اس وقت افغان فورسز کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا اب ان کی تعداد 340000 ہے۔ اگلے سال کے آخر میں وہ مکمل طور پر یہ ذمے داری سنبھال چکے ہونگے۔

صرف یہی نہیں تعلیم کے شعبے میں اب 130000 بچےصرف ہلمند میں اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں جن میں 30000 لڑکیاں ہیں جو طالبان کے دور میں نہیں تھیں۔ اب 80 فیصد افراد 10 کلومیٹر کے اندر طبی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں۔ اور طالبان کی حمایت دوسال پہلےکے مقابلے میں 20 فی صدسے گھٹ کر 5 فی صد رہ گئی ہے۔ سیاسی عمل آگےبڑھ رہا ہےاگلے سال کے صدارتی انتخابات کی تیاری جاری ہے جس میں پہلی بار پر امن انداز میں آئینی طور پر انتقال اقتدار ہوگا۔

میں سمجھتا ہوں کہ طالبان جو یہ پیش رفت دیکھ رہے ہیں، اب یہ تسلیم کررہے ہونگے کہ افغانستان کے مستقبل میں انہیں کوئی کردار دہشت یا تشدد کے ذریعے حاصل نہیں ہوگابلکہ اپنا اسلحہ ترک کرکے سیاسی عمل میں شرکت کرنا ہوگی۔ یہاں میں یہ قطعی طور سے واضح کردوں کہ اس امن عمل کی سمت افغانستان متعین کرے گا، اس پر افغانوں کی اجارہ داری ہوگی، اس کے سوا برطانیہ، امریکا یا کسی اور یورپی ملک کا کوئی اور ایجنڈا نہیں ہے۔ ہمارا ایجنڈا آپ کے استحکام،آپ کی سلامتی اور آپ کی خوشحالی کے علاوہ کچھ اورنہیں۔ اسی لئے ہم اس امن عمل کی تمنا رکھتے ہیں، لیکن یہ آپ کا امن عمل ہونا چاہئیے کسی اور کا نہیں۔

لیکن ظاہر ہے کہ آگے مسائل بھی ہونگے اور اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔اس میں ہزیمتیں بھی آئیں گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مواقع کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور میں ان تمام لوگوں سے کہتا ہوں جو تشدد کا راستہ ترک کردیں اور آئین کا احترام کریں جو اس ملک کی آئندہ خوشحالی میں حصہ لینا چاہتے ہوں تو اس موقع کا فائدہ اٹھائیں۔

ہم نے 2014ء کے بعد کے اپنے مشترکہ کمٹمنٹ کے بارے میں بات چیت کی۔ جب ہماری لڑاکا فوج واپس جائیے گی تو ہم 2014ء کے بعد افغان سیکیورٹی فورسزسے مالی تعاون جاری رکھیں گے۔ہم ترقی کے لئے اہم شعبوں میں تعاون کرتے رہیں گے، جیسے قانون کی حکمرانی، بدعنوانی کا خاتمہ، ملکیتی حقوق اورمضبوط ادارے۔

پریس کانفرنس میں سوالات کے دوران پاکستان، کوئٹہ میں طالبان کے دفتراور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا۔

ہمارے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور ہمارا اس باب میں نقطہ نظر بالکل واضح ہے کہ ایک محفوظ ، مستحکم اور خوشحال افغانستان، پاکستان کے مختصر، درمیانے اور طویل المدت مفادات کے لئے ضروری ہے۔ یہی بات ہم پاکستان سے کہتے ہیں۔ اسی لئے ہم نے برطانیہ،افغانستان اور پاکستان کے درمیان سہ فریقی مذاکراتی عمل میں مدد کی۔

حامد کرزائی نے اسی سوال کے جواب میں کہا.

افغانستان میں وفاقی نظام کو خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ایسی کوششیں ناکام ہوتی رہی ہیں۔ ہم نے پاکستان کی جانب سے بھی اس قسم کی باتیں سنی ہیں لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان اس صورتحال سے کیا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔لیکن یہ پاکستان کے لئے نقصان دہ ہوگا۔

جہاں تک پاکستانی طالبان تحریک کا تعلق ہے جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان طالبان کی ایک شاخ ہیں اور وہ افغان طالبان کے رہنما کو اپنا رہنما مان لیں گے۔ لہذا انہوں ے خود کو پاکستان سے الگ تھلگ کر لیا ہے۔ اس لئے طالبان کا کوئٹہ دفتر ان مذاکرات میں شریک ہو سکتا ہے اور افغان حکومت ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کر سکتی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کیا خاص اقدامات کئے جائیں گے،طالبان کیا چاہتے ہیں،امریکا کیا چاہتا ہے اور افغان حکومت کیا چاہتی ہے،حامد کرزائی نے کہا.

ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم امن مذاکرات سےکیا چاہتے ہیں، افغان عوام کیا چاہتے ہیں۔ہم افغانستان کے لئے امن اور استحکام چاہتے ہیں ،ہم طالبان کی وطن واپسی چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ معاشرے کا حصہ بنیں اور اپنے ملک کے لئے کام کریں۔ اور طالبان کیا چاہتے ہیں، وہ ہم ان سے سنیں گے جب امن مذاکرات شروع ہونگے۔ ہمیں امید ہے کہ امن مذاکرات جلد از جلد شروع ہونگے .

Updates to this page

شائع کردہ 30 June 2013