تقریر

ڈیوڈکیمرون کی عید الاضحی2014ءاستقبالئیے میں تقریر

وزیراعظم نے ڈاؤننگ اسٹریٹ میں عید الاضحی کے استقبالئیے میں برطانوی مسلمانوں کا خیرمقدم کیا.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
PM hosts Eid reception

10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں آپ کا گرمجوشی سے خیرمقدم اورالسلام علیکم۔ آپ سے یہاں عید الاضحی کی تقریب میں ملاقات بڑا خوشگوارموقع ہے۔آج شام میں عید کی اہمیت پر کچھ کہنا چاہونگا؛ میں ہمارے ملک کے لئے برطانوی مسلمانوں کی زبردست خدمات کے بارے میں کچھ کہنا چاہونگا؛ اورمیں اس کام کے بارے میں کچھ کہنا چاہونگا جو بحیثیت ایک ملک دنیا بھر میں مسلمانوں کے لئے کررہے ہیں.

لیکن یہ سب کہنےسے پہلے میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ مجھے علم ہے کہ یہ عید عراق اورشام کے تباہ کن واقعات اورداعش کی وحشیانہ کارروائیوں کی وجہ سےکتنی مشکل رہی ہے۔ لیکن اس تمام وحشیانہ کارروائی اورایلن ہیننگ اور ڈیوڈ ہائینز جیسے محنتی، نیک دل اورہمدرد برطانوی افراد کے المناک طور سے سر قلم کئے جانے کے واقعات کےدرمیان ہمارے ملک میں ایک جذبہ ابھرا ہے جس پرمجھے بے پناہ فخر ہواہے۔ اور وہ ہے برطانوی مسلمانوں کا ردعمل جومتحد ہوکر کھڑے ہوگئے اورکہا:’’ یہ بھیانک واقعات ہمارے نام پر نہیں ہورہے ہیں۔’’ اورمیں نے برطانوی مسلمانوں کے کہے پراورجوکچھ انہوں نے کیا اس پربڑانازمحسوس کیا۔آج ہم پھرکہتے ہیں کہ عراق اورشام میں جو لوگ یہ وحشیانہ اقدامات کررہے ہیں ان کا اسلام جیسے عظیم مذہب سے کوئی تعلق نہیں،جو امن کا مذہب ہے، ایسامذہب ہے جو روزمرہ مہربانی اورفراخدلی کے اقدامات کی تحریک پیدا کرتا ہے.

PM hosts Eid Reception

اور اب میں آتاہوں عید کی جانب۔ اگرچہ میں کسی بھی مذہب کا عالم نہیں ہوں لیکن مجھے عید سے اس لئے پیار ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مذاہب ایک دوسرے سے کتنے قریب ہیں۔ کیونکہ ہم قربانی کے بارے میں سوچتے ہیں اور ہم خیرخواہی کے بارے میں غور کرتے ہیں۔ ہم اس لمحے کے بارے میں سوچتے ہیں جب ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی خوشنودی کے لئے اپنے بیٹے کی قربانی پرآمادگی ظاہر کردی اوراللہ نے کہا، ‘’ نہیں! لواس کے بجائے تم میمنے کی قربانی کرو۔”

میری بائبل میں بھی وہی ہے جو آپ کے قران میں ہے۔ لیکن مجھے جو بات پیاری لگتی ہے وہ آپ جو عید پر کرتے ہیں کہ آپ ایک قدم اورآگے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ میمنے کی قربانی تین حصوں میں کی جائے: ایک اہل خانہ کے لئے، ایک دوستوں اور پڑوسیوں کے لئے اور تیسرا جو ہمارے معاشروں اورہمارے ملکوں میں میں ضرورتمند ہیں ان کے لئے۔ اور میں سمجھتاہوں کہ قربانی اور خیرخواہی کا یہ جذبہ جو عید میں پنہاں ہے بہت اہم ہے اور ہمارے تمام مذاہب اور کمیونٹیز کو یکجا کرنے والا ہے.

دوسری بات جو میں کہنا چاہتاہوں وہ ہمارے ملک میں برطانوی مسلمانوں کی خدمات ہیں۔ میں نے ان غیرمعمولی جذبات کا ذکرکیا ہے جو شام اورعراق کے وحشیانہ واقعات کے بارے میں ابھرے ہیں لیکن ہمیں اس پرحیرت نہیں ہونا چاہئیےکیونکہ برطانوی مسلم کمیونٹیز اپنے برطانوی ہونے پر بہت فخر کرتی ہیں اور وہ ہمارے ملک کے لئے بہت کچھ کرتی ہیں۔ برطانوی مسلمان حقیقتا برطانیہ کی کسی بھی دوسری کمیونٹی سےزیادہ مخیر، فلاحی عطیات دینے والے ہیں اوراس پراسی طرح بے حدفخرکیا جانا چاہئیےجیسا کہ ان کی فنون، ادب یاموسیقی اورکھیلوں کے لئے خدمات پر کیا جاتا ہے.

کانفرنس میں اپنی تقریر سے پہلےمیں ایک زبردست برطانوی مسلمان خاتون سے ملا جو نہ صرف دو ریسٹورینٹس چلاتی ہیں بلکہ استاد بھی ہیں، وہ کنزرویٹو کونسلر تھیں اورپانچ ذہین بچوں کی ماں جن سب سے میں ملا۔اور اس سے میں ان جفاکش برطانوی مسلم کمیونٹیز کے بارے میں سوچنے لگا کہ جوان اقدارکو بلند کئے ہوئے ہیں جو اس ملک کو عظیم بناتی ہیں: کاروباری عزائم کی اقدار، خاندانی اقدار، برادری کی اقدار، محنت کی اقدار۔ اور آج ہم ان ہی کو منانے یہاں موجود ہیں.

تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ ہم ایک ملک کی حیثیت سےان مسلمانوں کے لئے کیا کررہے ہیں جو دنیابھر میں کہیں بھی مصائب کا شکار ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ شاید اس بارے میں ہم زیادہ نہیں بتاتے اورمیرے خیال میں ہمیں اپنی کمیونٹیز میں اس بارے میں زیادہ بات کرنا چاہئیے تاکہ جولوگ مصائب کا شکارافراد سے ہمدردی رکھتے ہیں انہیں معلوم ہو کہ یہ قوم کتنی فراخدل اورخیرخواہ ہے۔ ہم شام میں اتنے المناک مسائل دیکھ رہے ہیں جہاں پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعدادہے اور بےشمار لوگ مشکلات سے گزررہے ہیں۔ برطانیہ دنیا کے کسی بھی ملک کے لئے دوسرا بڑا دو طرفہ عطیات دہندہ ہے۔ ہم ہمیشہ پہلے قدم اٹھانے والےاورآگے بڑھنے والے رہے ہیں اور اس پر ہمیں فخر ہونا چاہئیے.

ہم نے ایبولا کی روک تھام کے لئے بھی فوری کارروائی کی ہے جس سے افریقہ میں مسلمان اور عیسائی دونوں متاثر ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی سےمالی تعاون کرنے والوں میں ہم بہت بڑھ کر ہیں اور یہ صرف امدادتک نہیں بلکہ اچھی حکومت سازی اورمہارتوں کے شعبے میں بھی مدد کی جاتی ہے تاکہ فلسطین کو وہ ریاستی شکل مل سکے جس کا وہ اتنا حقدار ہے.

لہذا ان تمام شعبوں میں ہمیں اپنی کارکردگی پر خوش ہونا چاہئیے، برطانوی مسلمانوں کی کارکردگی پر خوش ہونا چاہئیےاوراس پر خوش ہونا چاہئیے جو ہمارا ملک دنیا بھر میں مصائب کا شکار افراد کے لئے کرتا ہے۔ ہم نے دنیا کے عوام سے، دنیا کے غریب ترین عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اپنی مجموعی قومی آمدنی کا 7۔0 فی صد امداداورترقی پر خرچ کریں گے اور ہمارا شمار دنیا کے ان چند ملکوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے وعدے کو پورا کیا ہے۔ اور وہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی مدد ہےخواہ وہ شام میں ہوں، افریقہ میں ہوں، مشرقی ایشیا میں ہوں،دنیا میں کہیں بھی ہوں۔ اورمیں سمجھتاہوں ہمیں اس پر فخر ہونا چاہئیے.

لہذا آج آپ کی آمد پرشکریہ ادا کرتا ہوں۔ اپنے ملک کے لئے آپ کی خدمات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ عید پرتمام مشکلات کے باوجود ہم ان بےشمارلوگوں کے لئے خوش ہونگے جنہوں نے حج کے لئے مقدس مقامات کا سفرکیا ۔ اب میں آپ سب کوعیدمبارک کہتاہوں۔ شکریہ.

Updates to this page

شائع کردہ 9 October 2014