سکریٹری خارجہ کے بھارت دورے کا آغازممبئی میں تقریر سے
بھارت کے دورے کے پہلے دن ولیم ہیگ نے ممبئی میں کاروباروں، تعلیم اور شہری معاشرے کے نمائندوں سے خطاب کیا.
سکریٹری خارجہ نے کہا:
دو ماہ پہلے پوری دنیا نے دیکھا کہ بھارت میں انسانی تاریخ کے سب سے بڑے انتخابات منعقد ہوئے۔ یہ سوچ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اس میں اتنی تعداد میں ووٹ ڈالے گئے جتنی کہ اس وقت دنیا کی کل آبادی تھی جب برطانیہ نے 400 سال پہلے مغلیہ دربارمیں اپنا پہلا سفارتی نمائندہ بھیجا تھا۔
بھارتی عوام نے نئی حکومت کو تبدیلی اوراصلاحات کے لئے اپنا اختیار دیا ہےجن میں بھارت کے لئے انقلابی امکانات ہوں اورہم سمجھتے ہیں کہ اس سے ہم دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے نئے امکانات پیدا ہونگے۔ اسی لئے ہم برطانیہ کےسکریٹری خارجہ اورچانسلرکی حیثیت سے اب تک کے سب سے بڑے وفدکے ساتھ اس ہفتےیہاں موجود ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ ہم بھارت اور برطانیہ کے درمیان مضبوط بندھنوں کے وسیع امکانات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
ہمارے ملک جمہوریت اورآزادئی اظہار کی اقدار سے وابستگی رکھتے ہیں۔ ہم دولت مشترکہ کے ساتھی رکن ہیں اورہمارے معاشروں کا گہرا تعلق ہے:
یہ شہردادابھائی نوروجی کی جائے پیدائش ہےجوبرطانیہ کے پہلے بھارتی رکن پارلیمنٹ تھے اور بھارت کے ایک طاقتور وکیل اوران نظریات اوراثرات کی ایک مثال ہے جو ہمارے درمیان عرصے سے گردش کررہے ہیں؛ اس سال جنگ عظیم اول کی صد سالہ سالگرہ پر ہم 2ء1 ملین بھارتیوں کو اعزازدیں گے جنہوں نےیورپ کی آزادی کے تحفظ کے لئے خدمات انجام دیں، تاکہ ان کی جرآت اور قربانیوں کو فراموش نہ کردیا جائے؛ اور اس موسم خزاں میں ہم 5ء1ملین برطانوی بھارتیوں کے اپنی قومی زندگی میں کردارکی یاد منائیں گے جو برطانیہ میں پہلی پراوسی بھارتیہ دیوس تقریب ہوگی۔
یہ سب اس لئے ہے کہ ہم ان بندھنوں کی بے پناہ اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں جن کے لئے ہماری حکومت بھارت کے ساتھ گزشتہ چارسال سے مستقل سرمایہ کاری کررہی ہے۔ ہم نے وزرا کے پچاس سے زائد دورے کروائے ہیں؛ ہم نے چندی گڑھ اورحیدرآباد میں نئے ڈپٹی ہائی کمیشن قائم کئے ہیں جس سے اب تک کسی ایک ملک میں یہ ہمارا وسیع ترین سفارتی نیٹ ورک بن گیا ہے؛ ہم نے ایک ہی دن میں کاروباری ویزاجاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، ویزا کی درخواست پر غور کے دوران پاسپورٹ کی واپسی کی نئی سروس شروع کی ہے؛ اور ہم نے برطانوی فرموں کے لئے بھارت کے ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کے بانٹنے کو آسان تر کردیا ہے۔
ہماری حکومت کی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی اصول یہ رہاہےکہ ہم اپنے ملک کو اگلے بیس برس میں ایشیا، افریقا اورلاطینی امریکا بھرکے ملکوں سے قریب ترتعلقات کی راہ پر گامزن کردیں جو ماضی سے قطعی مختلف ہو۔
ہم نے اپناعالمی سفارتی نیٹ ورک منتقل کیا ہے، دس نئے سفارتخانے کھولے ہیں اور سینکڑوں مزید سفارتکار، مضبوط لسانی اہلیتوں کے ساتھ جنوب اورمشرق میں بھیجے ہیں۔
یہ سب ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ہم نے برطانیہ کی خوشحالی کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنایا ہے اورہم دنیا کی سب سے زیادہ طاقتورمعیشتوں کے ساتھ اپنے رابطوں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں؛اورکیونکہ ہم سب کو متاثر کرنے والے عالمی مسائل سے نمٹنے کے لئے قوموں کے بڑھتے ہوئے دائرے میں قریبی تعاون سے کام کرنا چاہتے ہیں۔
بھارت کے ساتھ ہمارا رشتہ اپنی گہرائی اورمستقبل کے امکانات کی وجہ سے ممتاز نظر آتا ہے۔
ہم اس ہفتے یہاں اس لئے ہیں کہ آپ کی نئی حکومت کے تبدیلی کے جرآتمندانہ پروگرام سے اس وژن کو حقیقت میں بدلنے کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔اس کے لئے ہم تین شعبوں میں مزید قریبی تعاون سے کام کرنا چاہتے ہیں۔
پہلا،جبکہ وزیراعظم نریندرمودی تمام بھارتیوں کے لئےترقی اورنمو کے اپنے منصوبے پر آگے بڑھ رہے ہیں تو ہم کلیدی شراکت دار بننا چاہتے ہیں۔اپنی معیشت کو موڑدینے کا ہمارا اپنا تجربہ ہےاور ہم آپ کے اہداف کے حصول میں آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔
ہم بھارت کو ممتاز برطانوی کمپنیوں کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں جن کے پاس مہارت، ہنر اور تجربہ ہے اور وہ آپ کو انفرااسٹرکچر منصوبوں، سائنس میں سرمایہ کاری اور اختراعات اور آپ کی حکومت کی منصوبہ بندی کے تحت طبی دیکھ بھال کی بہتری میں مدد کرسکتی ہیں۔
دوسرا،ہم اپنے تعلیمی رابطوں کومستحکم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم دونوں ہی طلبہ اور تحقیق، نظریات اورمہارت کے تبادلے سے بے حد مستفید ہوتے ہیں۔
میں یہ واضح کردوں کہ ایسے تعلیم یافتہ بھارتی طلبہ کی تعداد برطانیہ آکر تعلیم حاصل کرنے پر محدود نہیں کی گئی نہ ہی گریجویٹ طلبہ کی تعدادکو ملازمت کے لئے محدود کیا گیا ہے۔
تیسرا، ہم خارجہ پالیسی میں مزید قریبی تعاون سے کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے مشترکہ مفادات اوراقدارکو آگے بڑھا سکیں۔
گزشتہ چند برس ہم نے بھارت کے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے زمانےمیں قریب رہ کر کام کیا ہے اور ہم اس ادارے میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت جاری رکھیں گے۔ہم نے اپنے انسداددہشت گردی تعاون کو مستحکم کیا ہے تاکہ اس عفریت کا مقابلہ کیا جائے جس نے چھ سال پہلے اس شہر میں اتنی انسانی جانوں کا زیاں کیا تھا اور جس کا آپ نے بڑی استقامت سے مقابلہ کیا تھا۔
ہم نے سائبرپالیسی جیسے اہم مسئلے پرایک بیش قدرمکالمے کا آغاز کیاہےجسے ہمیں مستحکم کرتے رہنا ہے۔ ہم دونوں افغانستان میں امن اور خوشحالی کی تعمیرکے لئے ایک ساتھ بہت کام کررہے ہیں ۔ برطانیہ نے افغان سیکیورٹی فورسزکی مضبوطی میں مدد کی ہے اور بھارت نے علاقائی تجارت میں اضافہ کرنےمیں۔
ہم دونوں ہی افغانستان اور وسیع تر خطے کے استحکام میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔ اب جبکہ آئیساف اپنا مشن کم کررہی ہے میں توقع رکھتا ہوں کہ ہم اپنے کام کو افغانستان اور دیگرپڑوسیوں کے ساتھ بڑھاتے رہیں گے۔ مشرق وسطی کے ایک دوسرے سے جڑے ہوئےبحران سے لے کر روس کی کرائمیا میں غیر قانونی کارروائیوں تک اس بات کی علامات ہیں کہ دنیا بڑی ناقابل اعتباراورمزیدغیرمستحکم ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات سے کوئی بھی ملک متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتااوراس کا تقاضا ہے کہ قوموں کے ہر ممکن وسیع دائرے سےپرعزم اوراجتماعی اقدامات کئے جائیں۔
ہم دونوں ملکوں کی خوشحالی کا دارومدارعالمی استحکام پر ہے جو ایک قواعد پر مبنی ایک عالمی نظام کے تحت ہو اورمیرا یقین ہے کہ ہم آنے والے برسوں میں خارجہ پالیسی میں بھی ایسی ہی مضبوط شراکت داری قائم کرلیں گے جیسی کہ دوسرے شعبوں میں ہے۔ ہمارا رشتہ اتنا وسیع اور گہرا ہےکہ جب یہ راستہ بدلتا ہے تو ہمیشہ یہ تبدیلی واضح نظرنہیں آتی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ گزشتہ چند برس میں ہم نے اپنی شراکت داری کو ایک نئی سمت دی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے سالوں میں ہم اس کی مکمل قوت سے مستفید ہوسکیں گے۔
مزید معلومات کے لئے
سکریٹری خارجہ ٹوئٹر پر @ولیم ہیگ
وزارت خارجہ ٹوئٹرپر @وزارت خارجہ
وزارت خارجہ اردوٹوئٹریوکےاردو
وزارت خارجہ فیس بک