تقریر

بھارت میں توانائی کامنظر2047ء میں

بھارت میں برطانوی ہائی کمشنر سرجیمز بیون کی نئی دہلی میں جمعہ 28 فروری کو کی گئی تقریر.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Sir James Bevan

برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بر سر اقتدار آنے کے بعدبھارت کا تین بار دورہ کیاہے۔جو ان کے اس عظیم ملک بھارت کے ساتھ مضبوط، وسیع اورگہرے تعلقات کی تشکیل کے ذاتی کمٹ منٹ کا مظہر ہے.

جب میرے وزیر اعظم یہاں دہلی میں وزیراعظم من موہن سنگھ سے ایک سال قبل ملے تو انہوں نے برطانیہ اور بھارت کے درمیان شراکت کومزید مستحکم کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ شراکت داری کوئی سفارتی نزاکت نہیں ہے۔اس کا ایک واضح مقصد ہے: ہمارے تمام شہریوں کی زندگی میں بہتری لانااور ہمارے ملکوں کو مزید محفوظ اور مزید خوشحال بنانا.

ایک شعبہ جس پردونوں وزرائے اعظم نے خاص توجہ دی وہ ہے توانائی کا شعبہ۔انہوں نے اتفاق کیا کہ توانائی کا تحفظ برطانیہ اور بھارت دونوں کا مسئلہ ہےاور ہمیں اس مشترکہ مسئلے کا سامنا کرنے کے لئے باہم تعاون کرنا چاہئیے۔ انہوں نے ہمارے تحقیقی اور ترقیاتی شراکت میں پیش رفت کا خیر مقدم کیا۔ اور انہوں نے توانائی کے شعبے میں پالیسی، تجارتی اور تحقیقی شراکت کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔اس وقت سے اب تک ہم نےخاصی پیش رفت کامشاہدہ کیا ہے.

ہماری تجارتی شراکت داریاں بڑھ رہی ہیں۔ بھارت کے توانائی شعبے میں برطانیہ اب سب سے بڑاعالمی سرمایہ کار ہے۔ بی پی/ریلائنس کا مشترکہ منصوبہ جو بھارت کے تیل اورگیس کے ذخائرپر کام کرنے کے لئے ہے، بھارت میں برطانیہ کا سب سے بڑا سرمایہ کاری منصوبہ ہے۔ بھارت میں اب تک کی گئی یہ سب سے بڑی عالمی سرمایہ کاری ہے۔ گزشتہ سال میں برٹش گیس نے گجرات کو گیس سپلائی کرنے کا ایک بہت بڑا معاہدہ کیا ہے۔ شیل بھی یہاں ایک سرمایہ کار ہے اور کئیرن انرجی بھی جنہوں نے راجستھان میں بھارت کی سب سے بڑی آئل فیلڈزدریافت کیں اورانہیں ترقی دینے میں مدد دی۔ یہ تمام برطانوی کمپنیاں بھارت کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے اور بھارت کی توانائی کے تحفظ کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہی ہیں.

ہم اب بھارتی حکومت اور ریاستوں کے ساتھ کئی امور پرپالیسی کے طریقہ کاراور مہارت کے تبادلے کے لئے پہلے سے زیادہ قریبی تعاون سے کام کررہے ہیں. اس قریبی تعاون کا ایک سبب یہ ہے کہ برطانیہ اور بھارت کو توانائی کے تحفظ کے کئی ایک جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ہم دونوں کو توانائی کی برآمد پرانحصار کم کرنا ہے۔ ہمیں توانائی میں مزید خود کفیل ہونا ہے۔ ہم دونوں کو اپنے داخلی ذخائر کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہے۔ ہم دونوں کو نئی اور قابل تجدید توانائی کے امکانات کو کھولنا ہے۔اور ہم دونوں کو توانائی کی اقتصادیات کودرست رکھنا ہے.

اسی لئے 2008ء میں برطانیہ نے اقتصادی راستوں کے ماڈل بنانے شروع کردئیے تھے جن کا مقصد 2050ء میں ہماری توانائی کی ضرورت کی تکمیل کے راستے تلاش کرنا ہے۔ ہم نے یہ ماڈل بھارتی حکومت سے شئیر کئے۔ اور آپ نے اپنی ضرورت اورحالات کے مطابق اپنا ماڈل تیار کر لیا.

آخر ہمیں 2047ء کے بارے میں ابھی سوچنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس لئے کہ جو فیصلے ہم ابھی کریں گے ان کا اثر توانائی کے تحفظاور پائیداری پر 30 سے 40 سال بعد ہوگا۔ ہمیں ان فیصلوں کی تقویت کے لئے شہادت کی ضرورت ہے کیونکہ ہم اپنے بچوں تک انہیں درست انداز میں پہنچانا چاہتے ہیں.

میں ڈاکٹر مونتک سنگھ اہلووالیا اورڈاکٹر فاروق عبداللہ کو، پلاننگ کمیشن ٹیم کوکہ آپنے اپنا توانائی ماڈل بہت تیز رفتاری سے بنایا ہےکیم کو اور ان سب کو جنہوں نے آج کے دن کو ایک حقیقت بنایا، خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ اپنی تقریرختم کرنا چاہتا ہوں کہ انہوںنے اس شعبے کو قیادت فراہم کی.

میں اس سے زیادہ کیا تعریف کروں کہ بھارت نے اس کے بالکل برعکس کیا ہے جیسا کہ برطانوی ٹیلی ویژن سیریز یس منسٹر میں دکھایا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم برطانوی اور آپ بھارتی دونوں جانتے ہیں کہ یہ ایک مزاحیہ ڈرامہ نہیں بلکہ دستاویز ہے۔ اس میں ایک منظر ہے جہاں سول سروس کے سربراہ سر ہمفری معصوم وزیر کو بتاتے ہیں کہ سول سروس عقیدے کے تین اصول ہیں: کام جلدی نمٹنے کی کوشش میں زیادہ وقت لگتا ہے، سستا کام کرنے میں اخراجات زیادہ آتے ہیں۔اورانہیں خفیہ طریقے سے انجام دینا زیادہ جمہوری ہوتا ہے.

مجھے یہ کہنا ہے آپ نے برطانوی سول سروس کےیہ تینوں اصول(فرضی) توڑ کر ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔آپ نے اپنا ماڈل بڑی سرعت کے ساتھ اور کم لاگت پر تیارکیا ہے اور سب سے زیادہ شاک جس بات سے سر ہمفری کو ہوتا وہ یہ ہے کہ آپ نے اسے خفیہ طریقے سے نہیں کیا۔ اس کے برعکس آپ نے اسے کھلے طریقے سے اور مشمولی طور پر کیا ہے اور اس ویب سائٹ پر سب کے ساتھ شئیر کیا ہے جسے ہم آج جاری کررہے ہیں۔

لہذا میں آپ سب کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ مجھے خوشی ہے کہ برطانیہ اس زبردست منصوبے کے ساتھ منسلک رہا ہے۔ میری حکومت اس پر مزید کام میں تعاون کرکے خوشی محسوس کرے گی۔ ہم بھارت کے ساتھ شراکت داری کو جاری رکھنے کے منتطر ہیں تاکہ ہمارے عوام کا مستقبل بہتر ہوسکے .

Updates to this page

شائع کردہ 28 February 2014