تقریر

جسٹین گریننگ: لڑکیوں اورعورتوں کے لئے عالمی مہم

ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کی وزیر نے سرگرم کارکنوں سے عورتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھنے اور ایسی دنیا کی تعمیرکے لئے کہا ہے جہاں ہر لڑکی اپنی تمام صلاحیتوں کا بھر پوراستعمال کرسکے.

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
Picture: Lindsay Mgbor/DFID
Justine Greening speaking at the Women of the World Festival. Picture: Lindsay Mgbor/DFID

Justine Greening speaking at the Women of the World Festival. Picture: Lindsay Mgbor/DFID

تعارف

برطانیہ کی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کی وزیر کی حیثیت سے گزشتہ ڈھائی سال میں میں نے لڑکیوں اورعورتوں کو بااختیار بنانے کی کوشش کو ترقی پزیر ملکوں کےہراس شعبے میں اولین ترجیح دی ہے جہاں میرا محکمہ کام کرتا ہے۔

ہم مزیدلڑکیوں کے اسکول جانے میں تعاون کررہے ہیں۔ مزیدعورتوں کی ووٹ دینے، اپنی زمین کا مالک ہونے، اپنے کاروبار شروع کرنے اوراپنے خاندان کی منصوبہ بندی کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کررہے ہیں.

سرگرم کارکن قیادت کررہے ہیں

یہ سب کچھ سرگرم کارکنوں اور مہم چلانے والوں کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ آپ لوگوں کی محنت ہے کہ آج صنفی مساوات اب بین الاقوامی ترقی میں کوئی چھوٹا سامعاملہ نہیں رہا ہے۔ اور اب ہم ان مسائل کو عالمی ایجنڈا پرلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ گرل سمٹ میں تبدیلی کے ہمارے منشورپر 490 دستخط کئے گئے جن میں 43 حکومتیں شامل تھیں یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

لہذا ہم کافی آگے بڑھ چکے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں واقعی صنفی مساوات کے حصول میں کامیابی درکار ہے تو ہمیں دنیا بھر میں عورتوں سے برتاؤ میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہونگی اورمجھے یقین ہے کہ لڑکیوں اورعورتوں، لڑکوں اور مردوں یعنی ہر شخص کواس تبدیلی کے لئے کوشش کرنا ہوگی۔

سماجی روایات

دنیابھر میں کئی لاکھ لڑکیوں کی صلاحیتوں کو اب بھی چھوٹی عمرمیں ہی محدود کردیا جاتا ہے، پیدائش کے بعد سے ہی ان کی زندگی محدوددائرے میں قید ہوجاتی ہے کیونکہ وہ ایک لڑکی ہیں۔

میرے خیال میں ہمیں یہ سوال کرنا ہوگا کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ اس لئے کہ ان کمیونٹیوں میں عورتیں عام طورسےگھر میں رہتی ہیں،چھوٹی عمر میں ان کی شادی ہوجاتی ہے، وہ عموما ووٹ نہیں دیتیں اورکوئی کاروبار نہیں کرتیں۔

اور پھر ہمیں یہ سوالبھی کرنا ہوگا کہ یہ روایات جو عورت کی زندگی کا توازن بگاڑ دیتی ہیں آخر کہاں سے پیداہوئیں اور یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کون سی روایات پر عمل ہونا چاہئیے۔

اور میرا ماننا ہے کہ خواتین کے حقوق کے کاز کوتیزی سے آگے بڑھانے کے لئے ہمیں ان سماجی روایات، رویے اور عقائد سے نمٹنا ہوگا جو بہت گہری جڑیں پکڑچکے ہیں اورجن کا مطلب ہے کہ لڑکی یا عورت، مرد سے کم درجے کی انسان ہوتی ہے.

تو ان سماجی روایات کوکیسے چیلنج کیا جائے؟

گرل سمٹ میں ملالہ نے کہاکہ لوگ خود تبدیل ہورہے ہیں اور اپنی روایات تشکیل دے رہے ہیں۔ روایات کو پتھرکی لکیر نہیں ہونا چاہئیے اور وہ صحیح کہہ رہی تھیں۔

مجھےیہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ آج میرا محکمہ 8ملین پاؤنڈ کی مددایک نئے انی شئیٹوایمپلی فائی چینج کے لئے شروع کررہا ہے، یہ فنڈ،جس میں برطانیہ کے علاوہ دوسرے بھی مدد کررہے ہیں، چھوٹے کمیونٹی گروپس، کارکنوں کی مدد کرے گا۔ ان گروپس کے لئے مالی مدد حاصل کرنا دشوارہوتا ہے لیکن یہی گروپ مقامی کمیونٹیوں کا اعتماد اوراعتبار حاصل کرپاتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ فنڈ لڑکوں اورمردوں پر بھی کام کے لئے استعمال ہوگا۔ میں جانتی ہوں کہ ہمارا زیادہ وقت اور زیادہ کام خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ صرف ہوا ہے جو کہ درست ہے لیکن میرا یہ بھی خیال ہے کہ ماضی میں ایک اہم شعبہ جو اکثر نظرانداز ہوا ہے وہ لڑکوں اور مردوں کے ساتھ مزیدرابطہ ہے۔ کیونکہ اکثر یہی لوگ روایات کا تعین کرتے ہیں۔

اسلئے ان روایات میں تبدیلی کے لئے ان کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے۔ اس پراقوام متحدہ تحریک آگے بڑھ رہی ہے اقوام متحدہ کی HeForShe مہم اب تک 200,000 سے زائددستخط حاصل کرچکی ہے.

انسانی حقوق

میرادوسرا نکتہ انسانی حقوق اور اقدار ہیں۔ جیسا کہ ہلیری کلنٹن نے بیس سال قبل بیجنگ میں تاریخی خواتین کانفرنس میں کہا تھا : انسانی حقوق عورت کے حقوق ہیں اور عورت کے حقوق انسانی حقوق ہیں۔’’

تحریک زور پکڑ رہی ہے

ان ملکوں کو جہاں انسانی اور حقوق نسواں ریکارڈکمزور ہے اب یہ سمجھ لیناچاہئیے کہ آج اور کل کی دنیا میں شفافیت اور احتساب کی روشنی مزید چمکدار ہوتی جائیگی۔

خواتین کے حقوق انسانی حقوق ہیں اور انسانی حقوق اقدار ہیں: وقار، مساوات، آزادئی اظہار، احتساب کی طاقت کی۔ کچھ لوگ انہیں مغربی اقدار قرار دیں گے۔ لیکن یہ غلط ہے۔ میں دنیا بھر میں ایسے کتنے ہی افراد سے ملی ہوں جو انہی اقدار کے حامل ہیں حتی کہ ان ملکوں میں بھی جہاں سب سے بڑے مسائل درپیش ہیں۔ جو لوگ وقار اور برابری کی اقدارکے مخالف ہیں وہ خود کو ایک بڑھتی ہوئی مخالف لہر سے لڑتے ہوئے پائیںگے۔ تبدیلی رات بھر میں نہیں آتی۔ یہاں برطانیہ میں عورتوں کے لئے حق رائے دہی تحریک کو پچاس، ساٹھ سال لگ گئے تب انہیں ووٹ دینے کا حق ملا۔ لیکن اب مہم نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اور دنیا میں تبدیلی کامطالبہ زور پکڑرہاہے.

Updates to this page

شائع کردہ 6 March 2015