بحالی امن میں کامیابی کے لئے کام
بیرونس جوائس اینلے نے بحالی کے تین '' پی'' کے بارے میں ایک بلاگ لکھا ہے جو اس ہفتے لندن میں اقوام متحدہ بحالی امن وزارتی کانفرنس سے پہلے شائع کیا جارہا ہے.
اس ہفتے لندن ایک روزہ مذاکرات کی میزبانی کررہا ہے جو اقوام متحدہ بحالی امن اوراسے بہتر کیسے بنایا جائے کے بارے میں ہوںگے.
برطانیہ نے70 سے زائد ممالک سے وزرا اورعالمی تنظیموں کے نمائندوں کواس بات چیت میں شرکت کی دعوت دی ہے.
اقوام متحدہ بحالی امن دستےنئے اور پہلے کبھی نہ پیش آئے چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال میں مہلک تنازعات میں بے حد اضافہ دیکھا گیا ہےاور عالمی برادری نے اقوام متحدہ بحالی امن دستوں کو کئی بار اس پر قابو کے لئے طلب کیا ہے.
دنیا بھر میں بحالی امن مشن کے باب میں ہم اپنے کارکنوں سےہمیشہ سے کہیں زیادہ کی درخواست کررہے ہیں۔ ہم ان سے توقع کررہے ہیں کہ وہ نہ صرف شہریوں کا تحفط کریں بلکہ معتبر انتخابات کو بھی ممکن بنائیں، ریاستوں کو قانون کی حکمرانی میں مدد دیں اورسب سے ضروری یہ کہ انسانی جان بچانے والی امداد کی محفوظ فراہمی کو ممکن بنائیں.
ہم سب چاہتے ہیں اور ہماری ضرورت بھی ہے کہ اقوام متحدہ بحالی امن دستوں کی تعداد کافی ہو اور ان کے پاس مناسب سازوسامان، ضروری اہلیت ہو تاکہ دنیا میں جہاں کہیں ان کی ضرورت ہو وہ کام کر سکیں۔اس کے حصول کے لئے ہمیں بحالی امن کے تین ‘پی’) (Ps یعنی منصوبہ بندی، عہد اور کارکردگی (planning, pledges and performance ) کی ضرورت ہے.
منصوبہ بندی، اقوام متحدہ کے مشن کی درست مقام پر تعیناتی، حقیقی چیلنجز پر توجہ دینےاوران صلاحیتوں کی نشاندہی جو اس کام کے لئے درکار ہوں سے متعلق ہے ۔ نقشہ بنانے سے تعیناتی تک اور آخر کاروہاں سے واپسی تک ایک مشن کو اس مقصد پر واضح توجہ کی ضرورت ہے جس کے حصول کے لئے وہ وہاں گیا ہے.
عہد یہ ہے کہ ممالک اپنی افواج، پولیس اورسازوسامان بھیجنے کا کمٹمنٹ کریں جو اقوام متحدہ بحالی امن کی اہلیت میں اضافہ کرسکیں۔ ہمیں یہ عہد لینے کی ضرورت ہے اورپھران میں انفرادی مشنوں سے مطابقت پیدا کرنا ہے۔اسی لئے برطانیہ اپنے فوجی تعاون کو دگنا کررہا ہے جو صومالیہ اور جنوبی سوڈان میں تعیناتی سے کیا جارہا ہے۔ یہاں برطانوی فوج اپنی غیر معمولی انجینئیرنگ صلاحیت کو ایسے مقامات کو مزید محفوظ اور مضبوط بنانے میں استعمال کرسکتی ہے جہاں شہری پناہ لیتے ہیں.
آخر میں ہمیں میدان میں کارکردگی کو لازما بہتر بنانا ہے۔ اس کے لئے تمام امن بحالی فوج کی مناسب تربیت ، آلات سے لیس ہونااوران کی چھان بین کی ضرورت ہے۔ میدان میں ہمیں باصلاحیت اور باہمت لیڈروں کی ضرورت ہے۔ اسی لئے برطانیہ خود ہی ان فوجیوں کی نہ صرف تربیت کررہا ہے بلکہ ایسے پروگراموں میں تعاون بھی کررہا ہے جن سے تربیتی مراکزکی بہتری اور ممکنہ مشن لیڈروں کی سرپرستی ہوسکے.
گزشتہ ستمبر میں صدر براک اوباما نے امن بحالی پر رہنماوں کی کانفرنس کی میزبانی کی تھی تاکہ اس مقصد میں مدد ہوسکے۔ کانفرنس میں 50 سے زائد ملکوں سےدستوں، تربیت اور آلات کی فراہمی کے نئے عہد ہوئے ۔ اب یہ ملک لندن میں اکھٹا ہورہے ہیں تاکہ صدر اوباما کا شروع کیاگیا کام جاری رہ سکے۔ ہم ان کمٹمنٹس کا بھی جائزہ لیں گے جن پر پہلے ہی عملدرآمد ہوچکا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ یہ نئے دستے کس طرح تیزی اور مزید موثر طریقے سے تعینات کئے جائیں اورخواتین، امن اور سلامتی کی فراہمی میں کس طرح ایک مستحکم کردار ادا کرسکتی ہیں.
دنیا بھر میں کئی لاکھ کمزور افراد کی جانوں کا دارومدارہمارے یہ یقینی بنانے پر ہے کہ بحالی امن کا مشن ان نئے اور روز افزوں بڑھتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹ سکے۔