یورپی کونسل اورانتہا پسندی کے انسداد پروزیراعظم کا بیان
ڈیوڈ کیمرون نے دارالعوام میں حالیہ یورپی کونسل اورانتہا پسندی کو شکست دینے کے لئے ہمارے اقدامات پربیان دیا ہے۔.
اس اختتام ہفتہ پر یورپی کونسل نے بڑے اہم عالمی امور پر زیادہ وقت صرف کیا جن کے بارے میں ہم سب کو اس وقت تشویش ہے جیسا کہ یوکرین، غزہ اورعراق کی صورتحال اور شام میں آئی ایس آئی کا بڑھتا ہوا خطرہ شامل ہیں.
اسرائیل اورغزہ
اسرائیل اورغزہ میں تشدد اور اس سے ہونے والے شدید شہری نقصان، خاص طورپرمعصوم بچوں کی تکالیف سے ہم سب کوبہت دکھ ہوا۔ حکومت نے اپنے عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کرایک پائیدارجنگ بندی کے لئے سخت محنت کی ہے اورہم قاہرہ کے معاہدے کا گرمجوشی سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ اس موسم گرما میں جانی نقصان بہت المناک رہا ہے اور شہری زخمیوں کی تعداد ناقابل قبول ہے،ایک فلسطینی بچے کی جان اتنی ہی قیمتی ہے جتنی ہماری کسی بھی قوم کے بچےکی۔ لیکن ایک پائیدار تصفیے کی حمایت کاجس میں ایک فلسطینی ریاست شامل ہومطلب یہ نہیں کہ ہم حماس کی دہشت گردانہ حکمت عملیوں کی حمایت کریں جس نے اسرائیل پرراکٹوں کی بارش کی اور جنگ بندی سے مسلسل انکار کرتی رہی۔ ہم اسرائیل (کے وجود) اوراسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت جاری رکھیں گےلیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسرائیلی حکومت کے ہر فیصلے کی حمایت کریں۔ بالکل حال ہی میں بیت اللحم کے نزدیک مغربی کنارے میں تقریبا ہزارایکڑاراضی پر قبضہ نہایت قابل مذمت ہے۔ مقبوضہ آبادیاں عالمی قانون کے تحت غیر قانونی ہیں اور ان سے اس امن عمل کی تشکیل میں کوئی مدد نہیں ہوتی جس کے ہم سب خواہشمند ہیں اورہم اسرائیلی حکومت پراس فیصلے کی واپسی پرزوردیں گے۔
جہاں میں اس المناک تنازع کے گرد موجود طاقتورجذبات کو سمجھتا ہوں،مجھے برطانیہ کی سڑکوں پر صیہونیت دشمنی کی بڑھتی ہوئی لہرپر گہری تشویش ہے۔ میں واضح کردوں کہ ہم اپنے ملک میں یہ برداشت نہیں کریں گے۔ صیہونیت دشمنی کے لئے کوئی جواز نہیں بنتا، اور نسل پرستی، تعصب یا انتہا پسندی کی کسی شکل کو جائز قرار دینے کے لئے سیاست یا پالیسی پرعدم اتفاق کی اجازت نہیں دی جاسکتی.
انتہا پسندی
برطانیہ میں ہمیں دہشت گردی کے جس خطرے کا سامنا ہےاورعراق میں اس موسم گرما میں ہوئی بربریت سے: مسلمانوں کی ساتھی مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت؛ مذہبی اقلیتوں جیسے کہ مسیحی اوریزیدیوں کی وحشیانہ ہلاکت؛ عورتوں کی غلامی اور ان کی عصمت دری اوریقینا امریکی صحافی جیمز فولی کی گردن اڑائے جانے کی وڈیو سے جس میں ایک برطانوی دہشت گرد جیسی آواز سنائی دیتی ہے، ہم سب کو صدمہ اورتکلیف ہوئی ہے۔
یورپی کونسل کے حتمی نتائج اس باب میں اس سے زیادہ واضح نہیں ہوسکتے:
’’ یورپی کونسل کا ماننا ہے کہ عراق اورشام میں اسلامی خلافت اور اس دہشت گردی کی اسلامی انتہا پسندانہ برآمد پرجس پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے، ‘‘ہر یورپی ملک کے لئے براہ راست خطرہ ہے۔’’ جمعہ کو خودمختار مشترکہ دہشت گردی تجزیاتی مرکز نے برطانیہ میں خطرے کی سطح کو’کافی سے شدید’ ہوتا قرار دیااور اب ہم سمجھتے ہیں کہ کم از کم 500 افراد برطانیہ سے اس خطے میں جنگ کے لئے گئے ہیں۔ فرانس کے 700،جرمنی سے 400 اور امریکا، کینیڈا، آسٹریا، ڈنمارک، اسپین، سوئیڈن، بلجئیم، نیدرلینڈز اور آسٹریلیا سے سینکڑوں اس کے علاوہ ہیں۔
یورپی کونسل نے اتفاق کیا کہ شام اورعراق میں لڑائی کے لئے جانے والے افراد کے خلاف مربوط کارروائی کی جائے اور تمام یورپی ملک اس انتہا پسندی کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے ضروری اقدام یقینی بنارہےہیں۔ ہمیں اس خطرے کے اصل اسباب کے بارے میں واضح ہونا چاہئیے: اسلامی انتہا پسندی کاایک زہریلا نظریہ جو لوگوں کو دنیا کے مسخ شدہ چہرے اور قرون وسطی میں زندگی گزارنے پر مجبور کرنے کے لئے انتہائی وحشیانہ طاقت استعمال کرتا ہے،اس کااسلام سے کوئی تعلق نہیں جس پر ایک بلین سے زائد افراد پرامن اور عقیدت کے ساتھ عمل کرتے ہیں اور جس سے ہر روز رحمدلی کے ان گنت چشمے پھوٹتے ہیں۔
اسلامی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئےہمیں ایک سخت، خفیہ معلومات سے لیس، متحمل اور جامع انداز اپنانا ہوگاتاکہ دہشت گردی کے خطرے کو جڑ سے اکھاڑا جائے۔ ہمیں اپنے پاس موجود تمام وسائل ، امداد، سفارتکاری اور فوج کو استعمال کرنا ہوگا اور ہمیں ایک مستحکم جوابی کارروائی کی ضرورت ہوگی خواہ وہ دہشت گردوں کے تعاقب میں فوجی کارروائی ہو، خفیہ معلومات کے باب میں بین الاقوامی تعاون ہو یا وطن میں دہشت گردوں کے خلاف غیر مصالحانہ کارروائی۔ برطانیہ پہلے ہی کرد قوتوں کو آلات فراہم کررہا ہے۔ ہم آئی ایس آئی ایل کے خلاف عراق میں امریکی فضائی حملوں میں تعاون کررہے ہیں اور ہم نے آئی ایس آئی ایل کو ملنے والی مالی مدد میں رکاوٹ ڈالنے، اس میں بھرتی پر پابندی اور انتہا پسندی کے مقاصد میں غیر ملکی جنگجوؤں کو شامل ہونے سے روکنے کے لئے سلامتی کونسل میں ایک قراداد منظور کروائی ہے۔
تاہم ان سخت سیکیورٹی اقدامات کے ساتھ راست سیاسی ردعمل کی بھی ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ دہشت گرد تنظیمیں وہیں پھلتی پھولتی ہیں جہاں سیاسی عدم استحکام ہو اورادارے کمزور یا ناکارہ ہوں، لہذا ہمیں کھلے اورآزاد معاشروں کی تعمیر میں تعاون کرنا چاہئیے۔
اب آئیے پھر وطن میں دہشت گردی کے خطرے کی طرف۔ ہم نے پہلے ہی کئی وسیع اقدامات اختیا ر کرلئے ہیں۔جن میں مشتبہ افراد کو اس خطے میں جانے سے روکنے کے لئے پاسپورٹوں کی ضبطی، غیر ملکی شہریوں کو دوبارا برطانیہ میں داخل ہونے سے روکنا، ضابطہ سازی جس سے دہشت گردی کی تمام سرگرمیوں پرسزا دی جاسکےخواہ وہ بیرون ملک ہوئی ہو اور ہنگامی ضابطوں کی منظوری جیسے کہ مواصلاتی ڈیٹا کا تحفظ شامل ہیں.۔ ہم نے اپنی کارروائیوں کو تیز ترکر دیا ہے اورصرف اس سال میں اب تک شام کے باب میں گرفتاریوں کی تعداد پانچ گناہوگئی ہے اور 2800 انتہاپسندانہ مواد انٹرنیٹ سے ہٹایا گیا ہےجس میں آئی ایس آئی ایل یا داعش کے 46 وڈیوزشامل تھے۔ تاہم ہم دواہم شعبوں میں اپنے اختیارات کو مزید قوی کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہمارے حفاظتی ہتھیار میں موجود خامیاں پر ہوسکیں:مشتبہ افراد کو سفر کرنے سے روکنا؛ یہاں پہلے سے موجود خطرناک افراد سے فیصلہ کن انداز میں نمٹنا۔ میں ان دونوں پر مختصرا روشنی ڈالنا چاہونگا۔
پہلا، لوگوں کو بیرن ملک سفر سے روکنا، پاسپورٹ سے خودبخود یہ حق نہیں مل جاتا۔ سکریٹری داخلہ کے پاس اگر انہیں یہ یقین کرنے کی وجہ ہو کہ کوئی شخص دہشت گرمی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی منصوبہ بندی کررہاہے تو اس کاپاسپورٹ جاری کرنے،منسوخ کرنے اور انکار کرنے کا شاہی اختیار ہے ۔ جب پولیس کو سرحد پر کسی مسافر کے بارے میں شبہ ہوتا ہے تو ابھی وہ یہ شاہی اختیاراستعمال نہیں کرسکتی اس لئے ان کے پاس روکنے اور تلاشی لینے کے محدود اختیارات ہیں۔اس خامی کو دور کرنے کےلئے ہم خصوصی اورتیربہدف ضابطہ متعارف کرائینگے جس سے پولیس کوسرحد پر پاسپورٹ کی ضبطی کا عارضی اختیار مل جائے گااوراس دوران وہ متعلقہ شخص کے بارے میں تحقیقات کرسکے گی۔
لوگوں کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے علاوہ ہم غیرملکی جنگجوؤں کو بھی برطانیہ میں داخلے سے روکیں گے۔ ہمارے پاس ان کی واپسی کو روکنے کے لئےپہلے سےہی اہم اختیارات ہیں۔ ہم نے امیگریشن ایکٹ 2014ء میں یہ ضابطہ رکھا ہے کہ ہم نیچرلائزیشن کے بعد بھی شہریت کومنسوخ کرسکیں لیکن یہ اختیارات ان افرادکے خلاف استعمال نہیں کئے جائیں گے جوصرف برطانوی شہری ہیں اوران کی شہریت منسوخ ہونے سے وہ بے وطن ہوجائیں گے۔
دوسرا، ہمیں مشتبہ انتہا پسندوں کے خلاف زیادہ اختیارات کی ضرورت ہے جو پہلے سے ہی برطانیہ میں موجود ہیں۔ سکریٹری داخلہ سلامتی کی بنیاد پردہشتگردی کی روک تھام اور تفتیشی اقدامات کی پہلے ہی مجازہیں لیکن خفیہ ایجنسیوں کا خیال ہے کہ مزید پابندیوں کے لئے ان کو قوی تراختیارات کی ضرورت ہے۔ لہذا ہم ایسا ہی کریں گے۔ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کا مطلب صرف نئے اختیارات ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ ہم کس طرح انتہا پسندی کی مختلف شکلوں سے نمٹتے ہیں۔ ہمارے اقدامات میں انتہاپسندی پھیلانے والی تنظیموں کو مالیاتی مدد کی فراہمی روکنے، منافرت پھیلانے والے مبلغوں پر پابندی اور یہ یقینی بنانا کہ اسکولوں اور یونی ورسٹیوں سے لے کر جیلوں تک حکومت کے تمام شعبوں میں انتہا پسندی کی لعنت کو ختم کیا جائے۔
ہمیں ایک کھلی، آزاد اورروادارقوم ہونے پر فخر ہے لیکن اس رواداری کو ان ثقافتوں کی غیر فعال قبولیت سے نہیں ملانا چاہئیےجو ہمارے معاشرے میں مختلف انداز میں زندگی گزارتی ہیں یا ایسے افرادجن کا رویہ ہماری اقدار کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ برطانوی اقدارکی پابندی کوئی اختیاری امر نہیں یہ اس ملک میں رہنے والے ہرشخص کا فرض ہے۔ اس لئے ہم اپنی اقدارکے لئے اٹھ کھڑے ہونگےاورآخرکار اس انتہا پسندی کو شکست دیں گےاور ہم آنے والی نسلوں کے لئے اپنے طرز زندگی کومحفوظ کریں گے