تنازعات میں جنسی تشدد سے نمٹنے میں مذہبی رہنماؤں اورکمیونٹیز کا کردار
تنازعات میں جنسی تشدد سے نمٹنے میں مذہبی رہنماؤں اورکمیونٹیز کا کردارکے موضوع پر وزارتی مکالمے میں بیرونس سعیدہ وارثی کی افتتاحی تقریر.
جنگ کے دوران جنسی تشدد انسانیت کے خلاف بدترین جرائم میں سے ایک ہے۔
اس کا استعمال کمیونٹیز کو تباہ کرتا ہے اورمردوں، عورتوں، لڑکیوں اور لڑکوں کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔اس کے اثرات جرم کے بعد بہت عرصے تک باقی رہتے ہیں اور تنازع کا دورانیہ طویل ہوجاتا ہے۔
اس کانفرنس کا مقصد کثیرالجہتی ہے۔
ہم ایک نئے عالمی پروٹوکول کا اجرا کررہے ہیں جو عالمی معیار کےمطابق ان جرائم کی تحقیقات اوردستاویزات تیار کرے گا۔ ہم ملکوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ داخلی قوانین کو مستحکم کریں تاکہ ان بھیانک جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے۔
ہم فریقین پر جنگ بندی اور امن مذاکرات کے لئے زور دے رہے ہیں تاکہ جنسی نوعیت کے جرائم کو قابل معافی کے دائرے سے نکالا جا ئے۔
ہم خاص طورپرخواتین کے لئے تنازعاتی علاقوں میں خطرات میں کمی کے لئے عملی اقدامات اختیار کریں گے۔
اس سے متاثرین کے لئے ہماری معاونت میں اضافہ ہوگا۔ لیکن میرے لئے یہ بنیادی طور پر رویوں میں انقلابی تبدیلی کے برابر ہے۔ ہمیں اس روئیے کو بدلنا ہوگا کہ بدنامی کا سامنا جنسی تشدد کے مجرموں کی بجائےاس کا شکار افراد کو کرنا پڑتا ہے۔
شاید آپ سوچ رہے ہوں کہ : اب کیوں؟ ہم ہی کیوں؟ اور یہاں کیوں؟
چونکہ میرا یہ ہمیشہ سے ماننا ہے کہ عقیدہ ذاتی زندگی، معاشرے،سیاست اور خاص طورپر خارجہ پالیسی میں مثبت کردار ادا کرتا ہے، میں نے یہ سمجھا کہ دنیا بھر سےمذہبی رہنماؤں اور وزرا کو اکھٹا کرنا ضروری ہےتاکہ ان کے مثبت کردارکے امکانات پر بات کی جاسکے۔
میرے لئے یہ سادہ حساب کتاب ہے۔ دنیا کے ہر دس میں سے آٹھ سے زیادہ افراد خود کو کسی عقیدے سے وابستہ بتاتے ہیں۔اور جو ایسا نہیں کرتے وہ بھی مذہب کی کی اہمیت اور قوت کو سمجھتے ہیں۔لہذا اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے عقیدے کو ایک مثبت کردار دینا ہوگا۔
عقیدہ اچھے کاموں کے لئے متاثر،متحرک اوربیدار کرسکتا ہے۔ مذہبی عقیدہ ان لوگوں کے لئے جو اس پر یقین رکھتے ہوں ان کی زندگی میں ایک طاقتور روشنی ہے۔ وہ انہیں امید دیتا ہے۔ وہ ان کے تناظر کی رہنمائی کرتا ہے ۔ وہ ان کے اچھے کاموں کو فروغ دیتا ہے۔
آپ صدیوں سے کمیونٹیز کی رہنمائی کررہے ہیں۔ تنازعات سے پہلے، ان کے دوران اور ان کے بعد۔
مذہبی رہنماسماجی اور ثقافتی روایات پراثراندازہونے، چیلنج کرنے اوران میں تبدیلی لانےکےلئے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ لیکن ایک دیانتدارانہ اور بے تکلفانہ مباحثے کے لئے اور اس عملی انداز کی عکاسی کے لئے جو آج اپنانا ضروری ہے، ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ مذہبی رہنما اس مسئلے کا حصہ بھی ہیں۔ہم نے تنازعات میں جنسی تشدد کا مظاہرہ دیکھا ہے اور عقیدے کے حامل افراد کو اور مذہبی کمیونٹیز کے رہنماؤں کو دیکھا ہے کہ وہ اس کی اتنی مذمت نہیں کرتے جتنی کرنا چاہئیے۔اس کے متاثرین دوبارا نشانہ بنتے ہیں جب کمیونٹیز انہیں فیصلہ سناکے رد کر دیتی ہیں۔
مجرموں کو فرار ہونے دیا جاتا ہے۔ ہم میں سے کسی نے، میرے خیال میں، اذیت کے شکار ان افراد سے پیار کرنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کی اپنی دینی ذمےداریوں کو پورا کرنے کے لئے کافی کام نہیں کیا ۔
کل کی زبردست تقریب ‘ ہم بولیں گے’ جسےاین جی اوز کے اتحاد نے منظم کیا تھا کے بعد شہری معاشرہ اور دینی رہنما چند واضح نتائج تک پہنچ گئے ہیں۔
عقائد کی حامل کمیونٹیز کو ایک زبردست کردار ادا کرنا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کو ایک زبردست کردار ادا کرنا ہے۔ اور انہوں نے ہم سے اس وزارتی سیشن میں رابطہ کیا تاکہ عقائد گروپوں اورحکومتوں کو مل کر کام کرنے کے نئے طریقے تلاش کئے جاسکیں۔
لہذا آئیے آج عملی اقدامات پر توجہ دیں۔ ہم ان مہمات سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں جو پہلے ہی کی جاچکی ہیں؟دینی رہنماؤں کو متاثرین کی مدد کے لئے موادکس طرح فراہم کیا جاسکتا ہے؟ہم وہ ثقافتی تبدیلی کیسے لاسکتے ہیں جو بدنامی کے دھبے کو ان بھیانک جرائم کے شکار افراد سے ہٹا کراس کے مجرموں پر ڈال سکے؟
مذہبی رہنما اپنی کمیونٹیز میں سب کو آواز اٹھانے کے لئے حوصلہ دے سکتے ہیں، یہ واضح کرسکتے ہیں کہ وہ محض ایک کمزوریا خامی کا شکار شخص ہی ہوتا ہے جو عورتوں اور مردوں کا استحصال کرے۔ یہ طاقت کی علامت نہیں بلکہ ان کی کمزوری کی نشانی ہے۔
متاثرین کو اس وقت خاموش نہیں کیا جانا چاہئیے جب انہیں اپنے خاندان،کمیونٹی اورسب سے زیادہ اپنے مذہب کی ضرورت ہوتی ہے۔
آئیے ہم یہ واضح کرلیں کہ ہمیں اس موقع سے جو آج ملا ہے فائدہ اٹھانا ہے۔اس میز کے گرد موجودہم میں سے ہر ایک ، وزیراورمذہبی رہنما، حکومتوں اورمذہبی رہنماؤں کے طریقہ کار میں انقلابی تبدیلی لانے کے لئے ایک دوسرے کی مدد کریں۔
اورایسا کرنے کامطلب یہ ہوگا کہ مستقبل میں کسی بھی تنازعاتی علاقے میں ہر شخص کو یہ معلوم ہوگا کہ اگر اس نے جنسی تشدد خود کیا یا اس کے ارتکاب میں کسی کی مدد کی تو وہ نہ صرف قانوں کی پوری قوت سے ٹکر لےگا بلکہ اسے ہر مقام پرمذہبی رہنماؤں اور کمیونٹیز کی پوری قوت کا سامنا کرنا ہوگا۔
آخر میں،ذاتی طور پر میں ایک مشہور قول دہراؤنگی کہ ہر کامیاب فرد کے پیچھے ایک مضبوط معاون شریک ہوتا ہے۔ لیڈر شپ کی مساوی قوت موجود ہے۔ لیڈرشپ کھڑی ہوکے جنسی تشدد کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔لیکن ایک اس سے بڑا لیڈر درکارہوتا ہے جو نہ صرف آواز اٹھائے بلکہ متاثرہ افراد کی مدد کرے۔مجھے امید ہے کہ آج ہمارا سیشن مذہبی رہنماؤں اور حکومتوں کے درمیان عظیم قیادت فراہم کرنے کی حوصلہ افزائی کے لئےہماری مدد کرے گا۔