تقریر

فلاحی کارکنوں کے تحفظ کےلئے مزید برطانوی امداد کا اعلان

اقوام متحدہ میں برطانوی مشن کے سفیر لائل گرانٹ کا شہریوں کے تحفظ پرسلامتی کونسل کے اجلاس میں بیان

اسے 2010 to 2015 Conservative and Liberal Democrat coalition government کے تحت شائع کیا گیا تھا
FCO King Charles street

آج سے گیارہ سال پہلے آج کے دن بغداد کے اقوام متحدہ کمپاؤنڈ پر ایک خطرناک حملے میں اقوام متحدہ کے عملے کے 22 اراکین کو ہلاک کردیا گیا تھا جس میں سکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے سرگیو ڈی میلوشامل تھے۔ آج صبح میں نے بھی آپ سب کی طرح ان کی یاد میں ایک تقریب میں شرکت کی.

یہ بڑی المناک بات ہے کہ گیارہ سال بعد بھی انسانی فلاحی کارکنوں پر حملے جاری ہیں۔ بلکہ مسئلہ بڑھ رہا ہے اور 2013ء میں تو اس نے ریکارڈ توڑ دیا اور 2012ء کے مقابلے میں ہلاکتوں کی تعداد میں66فی صد اضافہ ہوگیا۔ اور 2014ء میں یہ اس سے بھی آگے بڑھتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اس سال اب تک 79 کارکن ہلاک ہوچکے ہیں جو 2012ء کی تعداد سے زیادہ ہے۔اس مسئلے کو نظر اندازنہیں کیا جاسکتا۔ اسی لئے برطانیہ آج سلامتی کونسل کے سامنے یہ بریفنگ پیش کررہا ہے.

دنیا بھرمیں امدادی کارکن بے مثال خطرناک حالات میں کام کررہے ہیں۔ سب سے زیادہ حملوں کے مرکز پانچ ملکوں میں چار سب سے خطرناک، افغانستان، جنوبی سوڈان، سوڈان ( بشمول دارفور) اور شام سلامتی کونسل کے ایجنڈا پر موجود ہیں۔ کارکنوں کو غیر معمولی خطرات کا سامنا ہے۔ بے آہنگ تنازعات اورغیرریاستی عناصر نئے چیلنج پیش کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امدادی کارکنوں کو آسان نشانہ سمجھا جاتا ہے۔ جو کہ اخلاقی جرم ہے اورناقابل قبول ہے.

بڑھتے ہوئے غیرمحفوظ حالات میں کارروائی کے لئے اقوام متحدہ پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور یہ واضح ہے کہ انسانی فلاحی کارکن حملے کی زد میں رہیں گے۔ میں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اور قومی فلاحی عملے کو داد دیتا ہوں کہ وہ ضرورتمند افراد کو مدد دینے کے لئے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔ آج برطانیہ نے ان کے تحفظ کے لئے مزید ڈیڑھ ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے جس میں افغانستان، شام، عراق اورلیبیا میں این جی او سیفٹی آفیسرزکے لئے تعاون شامل ہے.

اس صورتحال میں عالمی انسانی قانون کی بڑھتی ہوئی بے عزتی خاص طورپرتشویشناک ہے۔ جیسا کہ ولیری آموس نے کونسل سے بارہا کہا ہے کہ ‘‘جنگ میں بھی ضابطے ہوتے ہیں’‘۔ فلاحی کارکنوں اوران کی گاڑیوں، رسد اور سہولیات پر حملے نہ صرف ان کارکنوں کی سلامتی،تحفظ اورنفسیات بلکہ ضرورتمند افراد تک رسائی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ عالمی برادری کو اکھٹا ہوکر عالمی انسانی قانون پرعمل اوراس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے احتساب کو یقینی بنانا چاہئیے.

لیکن جیسا کہ آج مسعود کاروخیل نے صبح پر زورانداز میں یاد دلایا کہ حملوں کی بڑی تعداد میں،80 فی صد تک، قومی اور مقامی طور پر بھرتی کئے گئے عملے نشانہ بنتے ہیں۔ ہم نے پہلی بار ذاتی طور پر ان سے سنا کہ افغانستان میں امدادی کارروائیوں کی صف اول پر وہاں کی عدم سلامتی کاکتنا اثر پڑتا ہے۔ دوسرے مقامات پر بھی ایسا ہی ہے۔ جنوبی سوڈان کے شہر بنج میں ہم نے حال میں ہلاکت خیز نسلی منافرت کے حملے دیکھے جو جنوبی سوڈانی امدادی کارکنوں پر کئے گئے تھے۔ انتظامی پالیسی کے طور پرمقامی کارکنوں کی بھرتی سے اس عملے کو مزید خطرات لاحق ہونگے.

اس بد تر ہوتے ہوئے پس منظر میں یہ سلامتی کونسل کی ذمے داری ہے کہ وہ قدم اٹھائے۔ جیسا کہ ساتھیوں نے کہا ہمارے پاس کئی طریقے ہیں۔ مذمت ہے۔ جنوبی سوڈان میں امدادی کارکنوں کی ہلاکت پر کونسل کا بیان ایک احسن قدم تھا اور اس سے حملے کے بارے میں آگا ہی ہوئی۔ پھر براہ راست کارروائی ہے۔ ہم نے بنج حملے کا مسئلہ گزشتہ ہفتےبراہ راست صدرسلوا کیر کے ساتھ اٹھایااور مطالبہ کیا کہ وہ ان حملوں کے خلاف واضح آواز اٹھائیں خواہ اس کے ذمے دار کوئی بھی ہوں۔ ہمیں اپنے قانون سازکردار کے ذریعے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ امن برقرار رکھنے کی کارروائیاں باضابطہ ہوں اورامداد کی تیز اور بلا رکاوٹ فراہمی کے لئے محفوظ ماحول پیدا کیا جائے۔ خصوصی سیاسی مشن کا ایسے اداروں کے فروغ میں کلیدی کردار ہے تاکہ احتساب یقینی ہو۔ اورمسلسل اسی روئیے کی صورت میں ہمیں، پابندیوں بشمول غیر ریاستی عناصرکے لئے غور کرنا ہوگا.

گیارہ سال پہلے اس کونسل نے قرارداد 1502 پر اتفاق کیا جو بغداد میں اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈ پر حملے کی روشنی میں سامنے آئی۔آج کی بریفنگ کے بعد سلامتی کونسل کی نئی کارروائی کے لئے ایک مستحکم کیس بنتا ہے۔ اس لئے ہم ایک نئی قرارداد کی تجویز پیش کرتے ہیں کہ کونسل کس طرح فلاحی کارکنوں کو بہتر تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔یہ وقت ہے کہ کونسل کو ایک بار پھر سنا جائے.

Updates to this page

شائع کردہ 19 August 2014