"عالمی اورمتعصب خطرے سے صرف ایک مربوط اورہم آہنگ ردعمل ہی نمٹ سکتا ہے"
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں غیرملکی جنگجوؤں پر بیان
عراق اور شام کا بحران اپنی بربریت کی وجہ سے دنیا کو صدمہ پہنچارہا ہے۔ اس ظلم میں گردن اڑادینا، آنکھیں نکال دینا اورعصمت دری جیسی وحشتناک حرکات شامل ہیں۔ یہ تو قرون وسطی جیسا حال ہوگیا ہے.
سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ بحران جدید، خوشحال معاشروں سےہمارے اپنے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اور ہماری سلامتی کو لاحق غیر ملکی جنگجوؤں سے یہ خطرہ پہلے کے کسی بھی بحران سے بہت زیادہ ہے۔ میں صدر باراک اوباما کو اس نازک مسئلے پر ذاتی قیادت کے لئے خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہم سب کو متاثر کررہا ہے۔ مجموعی تعداد تو بتادی گئی ہے، لیکن صرف میرے اپنے ملک سے 500 جنونی شام اورعراق گئے ہیں۔ جیمز فولی، اسٹیفن ساٹلاف اور ڈیوڈ ہینز کو ایک برطانوی لب و لہجے والے شخص کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھ کر برطانوی عوام کو اذیت ہورہی ہے کہ کیا ایک برطانوی شہری لوگوں کے قتل میں ملوث ہوسکتا ہے جن میں ایک اپنا ہم وطن بھی شامل ہے جوشام کے شہریوں کی مدد کرنے وہاں گیا تھا۔ یہ ہمارے پر امن اور روادار ملک کے مزاج کے بالکل برعکس ہے۔
اس لئے ہمیں ایسے ردعمل کی ضرورت ہے جو حکومت اور معاشرے کے تمام شعبوں کی طرف سے ہو اور ہر ملک اس وسیع ترین بین الاقوامی اتحاد میں شریک ہو۔ یہ آسان اور فوری ہونے والا کام نہیں۔اورمجھے لگتا ہے کہ ہم اس کے اثرات سے کئی سال تک نمٹتے رہیں گے۔ کیونکہ جیسا کہ کہا گیا ہے یہ صرف داعش نہیں، یہ الشباب ہے، یہ بوکو حرام ہے، یہ القاعدہ ہے۔ ہرجگہ جہاں کوئی بحران ہے، ہرمقام پرجہاں حکومت سازی کمزور ہے وہاں اسلامی انتہا پسندی کے زہر آلودبیانئیے جڑ پکڑ رہے ہیں۔
لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم تین کام کرسکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو ہمیں حملوں سے بچاؤاوران کے منصوبے بنانے والوں کو پکڑنےکے لئے اپنی دہشت گردمخالف کوششوں کو تیز ترکرنا ہے۔ ہم برطانیہ میں نئے اختیارات متعارف کرارہے ہیں تاکہ مشتبہ افراد کے پاسپورٹس ضبط کرکے انہیں سفر کرنے سے روک سکیں اورعارضی طور پر کچھ برطانوی شہریوں کو ملک میں دوبارہ داخل ہونے سے روک سکیں، فضائی کمپنیوں کو ‘نو فلائی’ فہرست اورسیکیورٹی اسکریننگ انتظامات کا پابند بنایا جائے اور ہماری پولیس اورسیکیورٹی عملے کو ان افراد کی نقل وحرکت کو محدود کرنے کا اہل بنایا جاسکے جو برطانیہ میں ہی موجودہیں لیکن ان سے خطرہ ہے۔
دوسرے، اورمیں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم انتہاپسندی کے زہر یلے نظرئیے کو شکست دیں جو دہشتگردی کی جڑ ہے۔ تشدد اورپرتشدد انتہا پسندی کی تبلیغ کرنے والی ویب سائٹس اورمبلغ موجود ہیں جن کو ہٹانا ضروری ہے۔ لیکن جیسا کہ دہشتگرد حملوں کے مجرمان کے پس منظر کے بارے میں شواہد ملے ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں سے کئی کو ان مبلغین نے متاثر کیا جن کا دعوی ہے کہ وہ تشدد کی حوصلہ افزائی نہیں کرتےلیکن دنیا کے بارے میں جن کا نقطہ نظراس کا جواز پیدا کرتا ہے۔
اور ہم جانتے ہیں کہ یہ نقطہ نظر کیا ہے، جھوٹ کا ملغوبہ: کہ 11/9 یہودی منصوبہ تھایا 7/7 کے لندن حملے ایک سازش تھی؛ یہ نظریہ کہ مسلمان دنیا میں ہرجگہ ایک دانستہ مغربی پالیسی کے تحت مارے جارہے ہیں؛ اورتہذیبوں کا ناگزیر تصادم کا تصور۔ ہمیں اس باب میں واضح رہنا چاہئیے :انتہا پسندی کے نظرئیے کی شکست کے لئےہمیں صرف پرتشدد انتہا پسندی سے نہیں بلکہ انتہا پسندی کی ہر شکل سے نمٹنا ہوگا۔اس کا مطلب ہوگا منافرت پھیلانے والے مبلغین کو اپنے ملکوں میں آنے سے روکنا۔اس کا مطلب ہوگا ان تنظیموں پر پابندی جو ملک میں اوربیرون ملک لوگوں کے خلاف دہشتگردی کرتی ہیں۔اس کا مطلب ہوگا متشدداورغیر متشدد انتہا پسندوں کو ہمارے اسکولوں ،ہماری یونی ورسٹیوں میں اور بعض جیلوں میں منافرت اورعدم برداشت پھیلانےسےروکنا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہیں کہ ہمیں فیصلہ کن کارروائی کرنا ہوگی تاکہ ہمارے آزاد اور جمہوری معاشروں کی اقدارکا تحفظ کیا جاسکے۔
اور جیسا کہ آج کہا گیا ہمیں خاص طور پر ان نوجوانوں کے لئے ایک متبادل بیانیہ فراہم کرنا ہوگا۔ سکریٹری جنرل مجھے آپکا یہ جملہ بہت متاثر کن لگا کہ ‘‘میزائل دہشت گردوں کوہلاک کرسکتے ہیں لیکن حکومت سازی دہشت گردی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔’’ اور ہمیں یہ بار بار کہنا ہوگا کہ اس کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں جو کہ امن کا مذہب ہے۔اورہرمسلم ملک اور ہر مسلم رہنماکو ایسے ہی واضح اندازمیں کہنا ہوگا جیسا کہ آج اردن کے شاہ نے واضح طورپران لوگوں کی مذمت کرتے ہوئےکہا کہ یہ لوگ اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن کوئی کام ویسا نہیں کرتے۔
تیسرا اورآخری یہ کہ ہم اپنے اپنے ملکوں میں انفرادی کارروائی کے ساتھ ساتھ اس خطرے کے سد باب کے لئے مل جلکر اس سے زیادہ کوششیں کریں۔ داعش کی شکست اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے سارے ہتھیاراستعمال کریں۔
برطانیہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے تیار ہے۔ عالمی اورمتعصب خطرے سے صرف ایک مربوط اورہم آہنگ ردعمل ہی نمٹ سکتا ہے۔
ہمیں قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔اور یہ قدم ابھی اٹھانے کی ضرورت ہے .